دعا کی اہمیت قرآن و سنت سے

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر – آیت نمبر 60

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادۡعُوۡنِىۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَـكُمۡؕ اِنَّ الَّذِيۡنَ يَسۡتَكۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِىۡ سَيَدۡخُلُوۡنَ جَهَنَّمَ دَاخِرِيۡنَ

ترجمہ:

82تمہارا ربّ کہتا ہے”مجھے پُکارو، میں تمہاری دُعائیں قبول کروں گا،83 جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے مُنہ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنّم میں داخل ہوں گے۔“84

تفسیر:

سورة الْمُؤْمِن  82

آخرت کے بعد اب توحید پر کلام شروع ہو رہا ہے جو کفار اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان دوسری بنائے نزاع تھی۔

 سورة الْمُؤْمِن  83

یعنی دعائیں قبول کرنے اور نہ کرنے کے جملہ اختیارات میرے پاس ہیں، لہٰذا تم دوسروں سے دعائیں نہ مانگو بلکہ مجھ سے مانگو۔ اس آیت کی روح کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے تین باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں 

اول یہ کہ دعا آدمی صرف اس ہستی سے مانگتا ہے جس کو وہ سمیع وبصیر اور فوق الفطری اقتدار (Supernatural powers) کا مالک سمجھتا ہے، اور دعا مانگنے کا محرک دراصل آدمی کا یہ اندرونی احساس ہوتا ہے کہ عالم اسباب کے تحت فطری ذرائع و وسائل اس کی کسی تکلیف کو رفع کرنے یا کسی حاجت کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں یا کافی ثابت نہیں ہو رہے ہیں، اس لیے کسی فوق الفطری اقتدار کی مالک ہستی سے رجوع کرنا ناگزیر ہے۔ بآواز بلند ہی نہیں، چپکے چپکے بھی پکارتا ہے، بلکہ دل ہی دل میں اس سے مدد کی التجائیں کرتا ہے۔ یہ سب کچھ لازماً اس عقیدے کی بنا پر ہوتا ہے کہ وہ ہستی اس کو ہر جگہ ہر حال میں دیکھ رہی ہے۔ اس کے دل کی بات بھی سن رہی ہے۔ اور اس کو ایسی قدرت مطلقہ حاصل ہے کہ اسے پکارنے والا جہاں بھی ہو وہ اس کی مدد کو پہنچ سکتی ہے اور اس کی بگڑی بنا سکتی ہے۔ دعا کی اس حقیقت کو جان لینے کے بعد یہ سمجھنا آدمی کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں رہتا کہ جو شخص اللہ کے سوا کسی اور ہستی کو مدد کے لیے پکارتا ہے وہ در حقیقت قطعی اور خالص اور صریح شرک کا ارتکاب کرتا ہے، کیونکہ وہ اس ہستی کے اندر ان صفات کا اعتقاد رکھتا ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفات ہیں۔ اگر وہ اس کو ان خدائی صفات میں اللہ کا شریک نہ سمجھتا تو اس سے دعا مانگنے کا تصور تک کبھی اس کے ذہن میں نہ آسکتا تھا۔

دوسری بات جو اس سلسلے میں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ کسی ہستی کے متعلق آدمی کا اپنی جگہ یہ سمجھ بیٹھنا کہ وہ اختیارات کی مالک ہے، اس سے یہ لازم نہیں آجاتا کہ وہ فی الواقع مالک اختیارات ہوجائے۔ مالک اختیارات ہونا تو ایک امر واقعی ہے جو کسی کے سمجھنے یا نہ سمجھنے پر موقوف نہیں ہے۔ جو در حقیقت اختیارات کا مالک ہے وہ بہرحال مالک ہی رہے گا، خواہ آپ اسے مالک سمجھیں یا نہ سمجھیں۔ اور جو حقیقت میں مالک نہیں ہے، اس کو محض یہ بات کہ آپ نے اسے مالک سمجھ لیا ہے، اختیارات میں ذرہ برابر بھی کوئی حصہ نہ دلوا سکے گی۔ اب یہ بات ایک امر واقعی ہے کہ قادر مطلق اور مدبر کائنات اور سمیع وبصیر ہستی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے اور وہی کلی طور پر اختیارات کا مالک ہے۔ دوسری کوئی ہستی بھی اس پوری کائنات میں ایسی نہیں ہے جو دعائیں سننے اور ان پر قبولیت یا عدم قبولیت کی صورت میں کوئی کارروائی کرنے کے اختیارات رکھتی ہو۔ اس امر واقعی کے خلاف اگر لوگ اپنی جگہ کچھ انبیاء اور اولیاء اور فرشتوں اور جنوں اور سیاروں اور فرضی دیوتاؤں کو اختیارات میں شریک سمجھ بیٹھیں تو اس سے حقیقت میں ذرہ برابر بھی کوئی فرق رو نما نہ ہوگا۔ مالک مالک ہی رہے گا اور بےاختیار بندے، بندے ہی رہیں گے۔

تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے دعا مانگنا بالکل ایسا ہے جیسے کوئی شخص درخواست لکھ کر ایوان حکومت کی طرف جائے مگر اصل حاکم ذی اختیار کو چھوڑ کر وہاں جو دوسرے سائلین اپنی حاجتیں لیے بیٹھے ہوں انہی میں سے کسی ایک کے آگے اپنی درخواست پیش کر دے اور پھر ہاتھ جوڑ جوڑ کر اس سے التجائیں کرتا چلا جائے کہ حضور ہی سب کچھ ہیں، آپ ہی کا یہاں حکم چلتا ہے، میری مراد آپ ہی بر لائیں گے تو بر آئے گی۔ یہ حرکت اول تو بجائے خود سخت حماقت و جہالت ہے لیکن ایسی حالت میں یہ انتہائی گستاخی بھی بن جاتی ہے جبکہ اصل حاکم ذی اختیار سامنے موجود ہو اور عین اس کی موجودگی میں اسے چھوڑ کر کسی دوسرے کے سامنے درخواستیں اور التجائیں پیش کی جا رہی ہوں۔ پھر یہ جہالت اپنے کمال پر اس وقت پہنچ جاتی ہے جب وہ شخص جس کے سامنے درخواست پیش کی جا رہی ہو خود بار بار اس کو سمجھائے کہ میں تو خود تیری ہی طرح کا ایک سائل ہوں، میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، اصل حاکم سامنے موجود ہیں، تو ان کی سرکار میں اپنی درخواست پیش کر، مگر اس کے سمجھانے اور منع کرنے کے باوجود یہ احمق کہتا ہی چلا جائے کہ میرے سرکار تو آپ ہیں، میرا کام آپ ہی بنائیں گے تو بنے گا۔

ان تین باتوں کو ذہن میں رکھ کر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ مجھے پکارو، تمہاری دعاؤں کا جواب دینے والا میں ہوں، انہیں قبول کرنا میرا کام ہے۔

 سورة الْمُؤْمِن  84

اس آیت میں دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ ایک یہ کہ دعا اور عبادت کو یہاں مترادف الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ دعائیں عبادت اور جان عبادت ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ سے دعا نہ مانگنے والوں کے لیے ” گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ” کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ سے دعا مانگنا عین تقاضائے بندگی ہے، اور اس سے منہ موڑنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی تکبر میں مبتلا ہے اس لیے اپنے خالق ومالک کے آگے اعتراف عبودیت کرنے سے کتراتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشادات میں آیت کے ان دونوں مضامین کو کھول کر بیان فرما دیا ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر کی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان الدعاء ھو العبادۃ ثم قرأ ادعونی استجب لکم۔ ….. یعنی دعا عین عبادت ہے، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (احمد، ترمذی، ابو داؤد و، نسائی، ابن ماجہ، بن ابی حتم، ابن جریر) ۔ حضرت انس (رض) کی روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الدعاء مخ العبادۃ، ” دعا مغز عبادت ہے ” (ترمذی) ۔ حضرت ابوہریرہ فرمانے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا من لم یسأل اللہ یغضب علیہ، ” جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس پر غضبناک ہوتا ہے۔ ” (ترمذی)

اس مقام پر پہنچ کر وہ عقدہ بھی حل ہوجاتا ہے جو بہت سے ذہنوں میں اکثر الجھن ڈالتا رہتا ہے۔ لوگ دعا کے معاملے پر اس طرح سوچتے ہیں کہ جب تقدیر کی برائی اور بھلائی اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ اپنی غالب حکمت و مصلحت کے لحاظ سے جو فیصلہ کرچکا ہے وہی کچھ لازماً رونما ہو کر رہنا ہے تو پھر ہمارے دعا مانگنے کا حاصل کیا ہے۔ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے جو آدمی کے دل سے دعا کی ساری اہمیت نکال دیتی ہے، اور اس باطل خیال میں مبتلا رہتے ہوئے اگر آدمی دعا مانگے بھی تو اس کی دعا میں کوئی روح باقی نہیں رہتی۔ قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت اس غلط فہمی کو دو طریقوں سے رفع کرتی ہے۔ اولاً ، اللہ تعالیٰ بالفاظ صریح فرما رہا ہے کہ ” مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا ” اس سے صاف معلوم ہوا کہ قضا اور تقدیر کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس نے ہماری طرح معاذاللہ، خود اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھی باندھ دیے ہوں اور دعا قبول کرنے کے اختیارات اس سے سلب ہوگئے ہوں۔ بندے تو بلا شبہ اللہ کے فیصلوں کو ٹالنے یا بدل دینے کی طاقت نہیں رکھتے، مگر اللہ تعالیٰ خود یہ طاقت ضرور رکھتا ہے کہ کسی بندے کی دعائیں اور التجائیں سن کر اپنا فیصلہ بدل دے۔ دوسری بات جو اس آیت میں بیان کی گئ ہے وہ یہ ہے کہ دعا خواہ قبول ہو یا نہ ہو، بہرحال ایک فائدے اور بہت بڑے فائدے سے وہ کسی صورت میں بھی خالی نہیں ہوتی، اور وہ یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کر کے اور اس سے دعا مانگ کر اس کی آقائی وبالا دستی کا اعتراف اور اپنی بندگی و عاجزی کا اقرار کرتا ہے۔ یہ اظہار عبودیت بجائے خود عبادت، بلکہ جان عبادت ہے جس کے اجر سے بندہ کسی حال میں بھی محروم نہ رہے گا قطع نظر اس سے کہ وہ خاص چیز اس کو عطا کی جائے یا نہ کی جائے جس کے لیے اس نے دعا کی تھی۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات میں ان دونوں مضامین کی بھی پوری وضاحت ہمیں مل جاتی ہے۔ پہلے مضمون پر حسب ذیل احادیث روشنی ڈالتی ہیں 

حضرت سلمان فارسی کی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا  لا یرد القضاء الا الدعاء (ترمذی) ۔ ” قضا کو کوئی چیز نہیں ٹال سکتی مگر دعا۔ ” یعنی اللہ کے فیصلے کو بدل دینے کی طاقت کسی میں نہیں ہے، مگر اللہ خود اپنا فیصلہ بدل سکتا ہے، اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب بندہ اس سے دعا مانگتا ہے۔

حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا  ما من احد یدعو بدعاءٍ الّا اٰتاہ اللہ ما سأل او کف عنہ من السوء مثلہ مالم یدع باثمٍ او قطیعۃ رحمٍ (ترمذی) ۔ ” آدمی جب کبھی اللہ سے دعا مانگتا ہے، اللہ اسے یا تو وہی چیز دیتا ہے جس کی اس نے دعا کی تھی یا اسی درجے کی کوئی بلا اس پر آنے سے روک دیتا ہے، بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے “۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون ایک دوسری حدیث میں ہے جو حضرت ابو سعید خدری (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔ اس میں آپ کا ارشاد یہ ہے کہ ما من مسلم یدعو بدعوۃٍ لیس فیھا اثم ولا قطیعۃ رحمٍ الا اعطاہ اللہ احدیٰ ثلٰث، اما ان یعجل لہ دعوتہ، و اما ان یَدَّخِرھا لہ فی الاٰخرۃ واما ان یصرف عنہ من السوء مثلھا (مسند احمد) ” ایک مسلمان جب بھی کوئی دعا مانگتا ہے، بشرطیکہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ اسے تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں قبول فرماتا ہے۔ یا تو اس کی وہ دعا اسی دنیا میں قبول کرلی جاتی ہے۔ یا اسے آخرت میں اجر دینے کے لیے محفوظ رکھ لیا جاتا ہے۔ یا اسی درجہ کی کسی آفت کو اس پر آنے سے روک دیا جاتا ہے۔ “

حضرت ابوہریرہ کا بیان ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا  اذا دعا احدکم فلا یقل اللھم اغفرلی ان شئت، ارحمنی ان شئت، ارزقنی ان شئت، وَلْیَعْزِم مسئلتہ (بخاری) ۔ ” جب تم میں سے کوئی شخص دعا مانگے تو یوں نہ کہے کہ خدایا مجھے بخش دے اگر تو چاہے، مجھ پر رحم کر اگر تو چاہے، مجھے رزق دے اگر تو چاہے، بلکہ اسے قطعیت کے ساتھ کہنا چاہیے کہ خدایا میری فلاں حاجت پوری کر “۔ دوسری روایت حضرت ابوہریرہ ہی سے ان الفاظ میں آئی ہے کہ آپ نے فرمایا ادعوا اللہ وانتم موقنون بالاجابۃ (ترمذی) ” اللہ سے دعا مانگو اس یقین کے ساتھ کہ وہ قبول فرمائے گا۔ “

ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ  یستجاب للعبد مالم یدع باثم او قطیعۃ رحم مالم یستعجل، قیل یا رسول اللہ ما الاستعجال ؟ قال یقول قد دعوت وقد دعوت فلم اَرَ یُستجاب لی فیستحسر عند ذٰلک ویدع الدعاء (مسلم) ۔ ” بندے کی دعا قبول کی جاتی ہے بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے، اور جلد بازی سے کام نہ لے۔ عرض کیا گیا جلد بازی کیا ہے یا رسول اللہ ؟ فرمایا جلد بازی یہ ہے کہ آدمی کہے میں نے بہت دعا کی، مگر میں دیکھتا ہوں کہ میری دعا قبول نہیں ہوتی، اور یہ کہہ کر آدمی تھک جائے اور دعا مانگنی چھوڑ دے۔ “

دوسرے مضمون کو حسب ذیل احادیث واضح کرتی ہیں 

حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لیس شئ اکرم علی اللہ من الدعاء (ترمذی۔ ابن ماجہ) ” اللہ کی نگاہ میں دعا سے بڑھ کر کوئی چیز با وقعت نہیں ہے “۔

حضرت ابن مسعود (رض) کی روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا  سلوا اللہ من فضلہ فان اللہ یحبّ ان یسأل (ترمذی) ۔ ” اللہ سے اس کا فضل مانگو کیونکہ اللہ اسے پسند فرماتا ہے کہ اس سے مانگا جائے۔ “

حضرت ابن عمر اور حضرت معاذ بن جَبَل کا بیان ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا  ان الدعاء ینفع ممّا نزل و ممّا لم ینزل فعلیکم عباد اللہ بالدعاء (ترمذی۔ مسند احمد) ” دعا بہرحال نافع ہے ان بلاؤں کے معاملے میں بھی جو نازل ہوچکی ہیں اور انکے معاملے میں بھی جو نازل نہیں ہوئیں۔ پس اے بندگان خدا تم ضرور دعا مانگا کرو “۔

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا  یسأل احدکم ربہ حاجتہ کلّہ حتیٰ یسأل شسع نعلہ اذا انقطع (ترمذی) ” تم میں سے ہر شخص کو اپنی حاجت خدا سے مانگنی چاہیے، حتیٰ کہ اگر اس کی جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو خدا سے دعا کرے۔ ” یعنی جو معاملات بظاہر آدمی کو اپنے اختیار میں محسوس ہوتے ہیں ان میں بھی تدبیر کرنے سے پہلے اسے خدا سے مدد مانگنی چاہیے، اس لیے کہ کسی معاملے میں بھی ہماری کوئی تدبیر خدا کی توفیق و تائید کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی، اور تدبیر سے پہلے دعا کے معنی یہ ہیں کہ بندہ ہر وقت اپنی عاجزی اور خدا کی بالا دستی کا اعتراف کر رہا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *