سیدھا راستہ قران پاک سے

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران

آیت نمبر 51

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ اللّٰهَ رَبِّىۡ وَرَبُّكُمۡ فَاعۡبُدُوۡهُ‌ ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

اللہ میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ، لہٰذا تم اُسی کی بندگی اختیار کرو، یہی سیدھا راستہ ہے“۔48

تفسیر:

سورة اٰلِ عِمْرٰن  48

اس سے معلوم ہوا کہ تمام انبیا (علیہم السلام) کی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کے بھی بنیادی نکات یہی تین تھے

ایک یہ کہ اقتدار اعلیٰ ، جس کے مقابلہ میں بندگی کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور جس کی اطاعت پر اخلاق و تمدن کا پورا نظام قائم ہوتا ہے، صرف اللہ کے لیے مختص تسلیم کیا جائے۔

دوسرے یہ کہ اس مقتدر اعلیٰ کے نمائندے کی حیثیت سے نبی کے حکم کی اطاعت کی جائے۔

تیسرے یہ کہ انسانی زندگی کو حلت و حرمت اور جواز و عدم جواز کی پابندیوں سے جکڑنے والا قانون و ضابطہ صرف اللہ کا ہو، دوسروں کے عائد کردہ قوانین منسوخ کردیے جائیں۔

پس در حقیقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے انبیا کے مشن میں یک سرمو فرق نہیں ہے۔ جن لوگوں نے مختلف پیغمبروں کے مختلف مشن قرار دیے ہیں اور ان کے درمیان مقصد و نوعیت کے اعتبار سے فرق کیا ہے انہوں نے سخت غلطی کی ہے۔ مالک الملک کی طرف سے اس کی رعیت کی طرف جو شخص بھی مامور ہو کر آئے گا اس کے آنے کا مقصد اس کے سوا اور کچھ ہوسکتا ہی نہیں کہ وہ رعایا کو نافرمانی اور خود مختاری سے روکے، اور شرک سے (یعنی اس بات سے کہ وہ اقتدار اعلیٰ میں کسی حیثیت سے دوسروں کو مالک الملک کے ساتھ شریک ٹھیرائیں اور اپنی وفاداریوں اور عبادت گزاریوں کو ان میں منقسم کریں) منع کرے، اور اصل مالک کی خالص بندگی و اطاعت اور پرستاری و وفاداری کی طرف دعوت دے۔

افسوس ہے کہ موجودہ اناجیل میں مسیح (علیہ السلام) کے مشن کو اس وضاحت کے ساتھ بیان نہیں کیا گیا جس طرح اوپر قرآن میں پیش کیا گیا ہے۔ تاہم منتشر طور پر اشارات کی شکل میں وہ تینوں بنیادی نکات ہمیں ان کے اندر ملتے ہیں جو اوپر بیان ہوئے ہیں۔ مثلاً یہ بات کہ مسیح صرف اللہ کی بندگی کے قائل تھے ان کے اس ارشاد سے صاف ظاہر ہوتی ہے

” تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر “ (متی ٤  ١٠)

اور صرف یہی نہیں کہ وہ اس کے قائل تھے بلکہ ان کی ساری کوششوں کا مقصود یہ تھا کہ زمین پر خدا کے امر شرعی کی اسی طرح اطاعت ہو جس طرح آسمان پر اس کے امر تکوینی کی اطاعت ہو رہی ہے

” تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو “ (متی ٦  ١٠)

پھر یہ بات کہ مسیح (علیہ السلام) اپنے آپ کو نبی اور آسمانی بادشاہت کے نمائندے کی حیثیت سے پیش کرتے تھے، اور اسی حیثیت سے لوگوں کو اپنی اطاعت کی طرف دعوت دیتے تھے، ان کے متعدد اقوال سے معلوم ہوتی ہے۔ انہوں نے جب اپنے وطن ناصرہ سے اپنی دعوت کا آغاز کیا تو ان کے اپنے ہی بھائی بند اور اہل شہر ان کی مخالفت کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اس پر متی، مرقس اور لوقا تینوں کی متفقہ روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا ” نبی اپنے وطن میں مقبول نہیں ہوتا “۔ اور جب یروشلم میں ان کے قتل کی سازشیں ہونے لگیں اور لوگوں نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ کہیں اور چلے جائیں تو انہوں نے جواب دیا ” ممکن نہیں کہ نبی یروشلم سے باہر ہلاک ہو “ (لوقا ١٣ ٢٣ ) ۔ آخری مرتبہ جب وہ یروشلم میں داخل ہو رہے تھے تو ان کے شاگردوں نے بلند آواز سے کہنا شروع کیا ” مبارک ہے وہ بادشاہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے “۔ اس پر یہودی علما ناراض ہوئے اور انہوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) سے کہا کہ آپ اپنے شاگردوں کو چپ کرائیں۔ اس پر آپ نے فرمایا ” اگر یہ چپ رہیں گے تو پتھر پکار اٹھیں گے “ (لوقا ١٩ ٣٨۔ ٤٠) ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا

” اے محنت اٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو، سب میرے پاس آؤ، میں تم کو آرام دونگا۔ میرا جوا اپنے اوپر اٹھالو۔۔۔۔ میرا جوا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا “۔ (متی ١١ ٢٨۔ ٣٠)

پھر یہ بات کہ مسیح (علیہ السلام) انسانی ساخت کے قوانین کے بجائے خدائی قانون کی اطاعت کرانا چاہتے تھے متی اور مرقس کی اس روایت سے صاف طور پر مترشح ہوتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودی علما نے اعتراض کیا کہ آپ کے شاگرد بزرگوں کی روایات کے خلاف ہاتھ دھوئے بغیر کھانا کیوں کھالیتے ہیں ؟ اس پر حضرت مسیح (علیہ السلام) نے فرمایا تم ریاکاروں کی حالت وہی ہے جس پر یسعیاہ نبی کی زبان سے یہ طعنہ دیا گیا ہے کہ ” یہ امت زبان سے تو میری تعظیم کرتی ہے مگر ان کے دل مجھ سے دور ہیں، کیونکہ یہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں “۔ تم لوگ خدا کے حکم کو تو باطل کرتے ہو اور اپنے گھڑے ہوئے قوانین کو برقرار رکھتے ہو۔ خدا نے تورات میں حکم دیا تھا کہ ماں باپ کی عزت کرو اور جو کوئی ماں باپ کو برا کہے وہ جان سے مارا جائے۔ مگر تم کہتے ہو کہ جو شخص اپنی ماں یا باپ سے یہ کہہ دے کہ میری جو خدمات تمہارے کام آسکتی تھیں انہیں میں خدا کی نذر کرچکا ہوں، اس کے لیے بالکل جائز ہے کہ پھر ماں باپ کی کوئی خدمت نہ کرے۔ (متی ١٥ ٣۔ ٩۔ مرقس ٧ ٥۔ ١٣)

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران

آیت نمبر 103

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰهِ جَمِيۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا‌ ۖ وَاذۡكُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ اِذۡ كُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَ لَّفَ بَيۡنَ قُلُوۡبِكُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِهٖۤ اِخۡوَانًا ۚ وَكُنۡتُمۡ عَلٰى شَفَا حُفۡرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَكُمۡ مِّنۡهَا ‌ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمۡ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمۡ تَهۡتَدُوۡنَ ۞

ترجمہ:

سب مل کر اللہ کی رسی 83کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے،اللہ نے تم کو اس سے بچالیا۔84 اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارےسامنے روشن کرتا ہے شاید کہ ان علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آجائے۔85

تفسیر:

سورة اٰلِ عِمْرٰن  83

اللہ کی رسی سے مراد اس کا دین ہے، اور اس کو رسی سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہل ایمان کا تعلق اللہ سے قائم کرتا ہے اور دوسری طرف تمام ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے۔ اس رسی کو ” مضبوط پکڑنے “ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں اصل اہمیت ” دین “ کی ہو، اسی سے ان کو دلچسپی ہو، اسی کی اقامت میں وہ کوشاں رہیں اور اسی کی خدمت کے لیے آپس میں تعاون کرتے رہیں۔ جہاں دین کی اساسی تعلیمات اور اس کی اقامت کے نصب العین سے مسلمان ہٹے اور ان کی توجہات اور دلچسپیاں جزئیات و فروع کی طرف منعطف ہوئیں، پھر ان میں لازماً وہی تفرقہ و اختلاف رونما ہوجائے گا جو اس سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) کی امتوں کو ان کے اصل مقصد حیات سے منحرف کر کے دنیا اور آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا کرچکا ہے۔

 سورة اٰلِ عِمْرٰن  84

یہ اشارہ ہے اس حالت کی طرف جس میں اسلام سے پہلے اہل عرب مبتلا تھے۔ قبائل کی باہمی عداوتیں بات بات پر ان کی لڑائیاں، اور شب و روز کے کشت و خون، جن کی بدولت قریب تھا کہ پوری عرب قوم نیست و نابود ہوجاتی۔ اس آگ میں جل مرنے سے اگر کسی چیز نے انہیں بچایا تو وہ یہی نعمت اسلام تھی۔ یہ آیات جس وقت نازل ہوئی ہیں اس سے تین چار سال پہلے ہی مدینہ کے لوگ مسلمان ہوئے تھے، اور اسلام کی یہ جیتی جاگتی نعمت سب دیکھ رہے تھے کہ اوس اور خزرج کے وہ قبیلے، جو سالہا سال سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، باہم مل کر شیر و شکر ہوچکے تھے، اور یہ دونوں قبیلے مکہ سے آنے والے مہاجرین کے ساتھ ایسے بےنظیر ایثار و محبت کا برتاؤ کر رہے تھے جو ایک خاندان کے لوگ بھی آپس میں نہیں کرتے۔

 سورة اٰلِ عِمْرٰن  85

یعنی اگر تم آنکھیں رکھتے ہو تو ان علامتوں کو دیکھ کر خود اندازہ کرسکتے ہو کہ آیا تمہاری فلاح اس دین کو مضبوط تھامنے میں ہے یا اسے چھوڑ کر پھر اسی حالت کی طرف پلٹ جانے میں جس کے اندر تم پہلے مبتلا تھے ؟ آیا تمہارا اصلی خیر خواہ اللہ اور اس کا رسول ہے یا وہ یہودی اور مشرک اور منافق لوگ جو تم کو حالت سابقہ کی طرف پلٹا لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں ؟

القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام

آیت نمبر 71

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ اَنَدۡعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنۡفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلٰٓى اَعۡقَابِنَا بَعۡدَ اِذۡ هَدٰٮنَا اللّٰهُ كَالَّذِى اسۡتَهۡوَتۡهُ الشَّيٰطِيۡنُ فِى الۡاَرۡضِ حَيۡرَانَ ۖ لَـهٗۤ اَصۡحٰبٌ يَّدۡعُوۡنَهٗۤ اِلَى الۡهُدَى ائۡتِنَا ‌ؕ قُلۡ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الۡهُدٰى‌ؕ وَاُمِرۡنَا لِنُسۡلِمَ لِرَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ ۞

ترجمہ:

اے محمدؐ! ان سے پو چھو کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پکاریں جو نہ ہمیں نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان؟ اور جبکہ اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا چکا ہے تو کیا اب ہم الٹے پاؤں پھر جائیں؟ کیا ہم اپنا حال اُس شخص کا سا کر لیں جسے شیطانوں نے صحرا میں بھٹکا دیا ہو اور وہ حیران و سرگرداں پھر رہا ہو درآں حالیکہ اس کے ساتھی اسے پکار رہے ہوں کہ اِدھر آ یہ سیدھی راہ موجود ہے؟کہو، حقیقت میں صحیح رہنمائی تو صرف اللہ ہی کی رہنمائی ہے اور اس کی طرف سے ہمیں یہ حکم ملا ہے کہ مالک کائنات کے آگے سر اطاعت خم کر دو

القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام

آیت نمبر 126

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَهٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسۡتَقِيۡمًا‌ ؕ قَدۡ فَصَّلۡنَا الۡاٰيٰتِ لِقَوۡمٍ يَّذَّكَّرُوۡنَ ۞

ترجمہ:

حالانکہ یہ راستہ تمہارے رب کا سیدھا راستہ ہے اور اس کے نشانات اُن لوگوں کے لیے واضح کر دیے گئے ہیں جو نصیحت قبول کرتے ہیں

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام

آیت نمبر 153

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاَنَّ هٰذَا صِرَاطِىۡ مُسۡتَقِيۡمًا فَاتَّبِعُوۡهُ‌ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوۡا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمۡ عَنۡ سَبِيۡلِهٖ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ وَصّٰٮكُمۡ بِهٖ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُوۡنَ ۞

ترجمہ:

﴿١۰﴾ نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اِسی پر چلو اور دُوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اُس کے راستے سے ہٹاکر تمہیں پراگندہ کردیں گے۔135 یہ ہے وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم کَج روی سے بچو۔

تفسیر:

سورة الْاَنْعَام  135

اوپر جس فطری عہد کا ذکر ہوا، یہ اس عہد کا لازمی اقتضا ہے کہ انسان اپنے رب کے بتائے ہوئے راستہ پر چلے، کیونکہ اس کے امر کی پیروی سے منہ موڑنا اور خود سری و خود مختاری یا بندگی غیر کی جانب قدم بڑھانا انسان کی طرف سے اس عہد کی اولین خلاف ورزی ہے جس کے بعد ہر قدم پر اس کی دفعات ٹوٹتی چلی جاتی ہیں۔ علاوہ بریں اس نہایت نازک، نہایت وسیع اور نہایت پیچیدہ عہد کی ذمہ داریوں سے انسان ہرگز عہدہ برآ نہیں ہوسکتا جب تک وہ خدا کی رہنمائی کو قبول کر کے اس کے بتائے ہوئے راستہ پر زندگی بسر نہ کرے۔ اس کو قبول نہ کرنے کے دو زبردست نقصان ہیں۔ ایک یہ کہ ہر دوسرے راستہ کی پیروی لازماً انسان کو اس راہ سے ہٹا دیتی ہے جو خدا کے قرب اور اس کی رضا تک پہنچنے کی ایک ہی راہ ہے۔ دوسرے یہ کہ اس راہ سے ہٹتے ہی بیشمار پگڈنڈیاں سامنے آجاتی ہیں جن میں بھٹک کر پوری نوع انسانی پراگندہ ہوجاتی ہے اور اس پراگندگی کے ساتھ ہی اس کے بلوغ و ارتقاء کا خواب بھی پریشان ہو کر رہ جاتا ہے۔ انہی دونوں نقصانات کو اس فقرے میں بیان کیا گیا ہے کہ ” دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تمہیں اس کے راستہ سے ہٹا کر پراگندہ کردیں گے “۔ (ملاحظہ ہو سورة مائدہ،  ٣٥) ۔

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام

آیت نمبر 161

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ اِنَّنِىۡ هَدٰٮنِىۡ رَبِّىۡۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍۚ دِيۡنًا قِيَمًا مِّلَّةَ اِبۡرٰهِيۡمَ حَنِيۡفًا‌ ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اے محمد ؐ ! کہو میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیم ؑ کا طریقہ142 جسے یکسُو ہوکر اُس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا

تفسیر:

سورة الْاَنْعَام  142

” ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ “ یہ اس راستے کی نشان دہی کے لیے مزید ایک تعریف ہے۔ اگرچہ اس کو موسیٰ (علیہ السلام) کا طریقہ یا عیسیٰ (علیہ السلام) کا طریقہ بھی کہا جاسکتا تھا، مگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف دنیا نے یہودیت کو اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف مسیحیت کو منسوب کر رکھا ہے، اس لیے ” ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ “ فرمایا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہودی اور عیسائی، دونوں گروہ بر حق تسلیم کرتے ہیں، اور دونوں یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ یہودیت اور عیسائیت کی پیدائش سے بہت پہلے گزر چکے تھے۔ نیز مشرکین عرب بھی ان کو راست رو مانتے تھے اور اپنی جہالت کے باوجود کم از کم اتنی بات انہیں بھی تسلیم تھی کہ کعبہ کی بنا رکھنے والا پاکیزہ انسان خالص خدا پرست تھا نہ کہ بت پرست۔

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف

آیت نمبر 30

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَرِيۡقًا هَدٰى وَ فَرِيۡقًا حَقَّ عَلَيۡهِمُ الضَّلٰلَةُ ‌ ؕ اِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيٰطِيۡنَ اَوۡلِيَآءَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَيَحۡسَبُوۡنَ اَنَّهُمۡ مُّهۡتَدُوۡنَ ۞

ترجمہ:

ایک گروہ کوتو اس نے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، مگر دوسرے گروہ پر گمراہی چسپاں ہو کر رہ گئی ہے، کیونکہ انہوں نے خدا کے بجائے شیاطین کو اپنا سر پرست بنا لیا ہے اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم سیدھی راہ پر ہیں

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس

آیت نمبر 25

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاللّٰهُ يَدۡعُوۡۤا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِؕ وَيَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ ۞

ترجمہ:

﴿ تم اس ناپائیدار زندگی کے فریب میں مبتلا ہو رہے ہو﴾ اور اللہ تمہیں دارالسلام کی طرف دعوت دے رہا ہے۔32 ﴿ہدایت اُس کے اختیار میں ہے﴾ جس کو وہ چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے

تفسیر:

سورة یُوْنُس  32

یعنی دنیا میں زندگی بسر کرنے کے اس طریقے کی طرف جو آخرت کی زندگی میں تم کو دارالسلام کا مستحق بنائے۔ دارالسلام سے مراد ہے جنت اور اس کے معنی ہیں سلامتی کا گھر، وہ جگہ جہاں کوئی آفت، کوئی نقصان، کوئی رنج اور کوئی تکلیف نہ ہو۔

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 15 الحجر

آیت نمبر 41

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالَ هٰذَا صِرَاطٌ عَلَىَّ مُسۡتَقِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

فرمایا”یہ راستہ ہے جو سیدھا مجھ تک پہنچتا ہے۔23

تفسیر:

سورة الْحِجْر  23

” ھٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ” کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک معنی وہ ہیں جو ہم نے ترجمہ میں بیان کیے ہیں اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ ” ھٰذَا طَرِیْقٌ حَقٌّ عَلَیَّ اَنْ اُرَاعِیْہ “، یعنی یہ بات درست ہے، میں بھی اس کا پابند رہوں گا۔

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل

آیت نمبر 9

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَعَلَى اللّٰهِ قَصۡدُ السَّبِيۡلِ وَمِنۡهَا جَآئِرٌ‌ؕ وَلَوۡ شَآءَ لَهَدٰٮكُمۡ اَجۡمَعِيۡنَ  ۞

ترجمہ:

اور اللہ ہی کے ذمّہ ہے سیدھا راستہ بتانا جب کہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں۔9 اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا10  ؏

تفسیر:

سورة النَّحْل  9

توحید اور رحمت و ربوبیت کے دلائل پیش کرتے ہوئے یہاں اشارۃ نبوت کی بھی ایک دلیل پیش کردی گئی ہے۔ اس دلیل کا مختصر بیان یہ ہے

دنیا میں انسان کی فکر و عمل کے بہت سے مختلف راستے ممکن ہیں اور عملا موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سارے راستے بیک وقت تو حق نہیں ہو سکتے۔ سچائی تو ایک ہی ہے اور صحیح نظریہ حیات صرف وہی ہوسکتا ہے جو اس سچائی کے مطابق ہو۔ اور عمل کے بیشمار ممکن راستوں میں سے صحیح راستہ بھی صرف وہی ہوسکتا ہے جو صحیح نظریہ حیات پر مبنی ہو۔

اس صحیح نظریے اور صحیح راہ عمل سے واقف ہونا انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے، بلکہ اصل بنیادی ضرورت یہی ہے۔ کیونکہ دوسری تمام چیزیں تو انسان کی صرف ان ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جو ایک اونچے درجے کا جانور ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہوا کرتی ہیں۔ مگر یہ ایک ضرورت ایسی ہے جو انسان ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہے۔ یہ اگر پوری نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کی ساری زندگی ہی ناکام ہوگئی۔

اب غور کرو کہ جس خدا نے تمہیں وجود میں لانے سے پہلے تمہارے لیے یہ کچھ سروسامان مہیا کر کے رکھا اور جس نے وجود میں لانے بعد تمہاری حیوانی زندگی کی ایک ایک ضرورت کو پورا کرنے کا اتنی دقیقہ سنجی کے ساتھ اتنے بڑے پیمانے پر انتظام کیا، کیا اس سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ اس نے تمہاری انسانی زندگی کی اس سب سے بڑی اور اصلی ضرورت کو پورا کرنے کا بندوبست نہ کیا ہوگا ؟

یہی بندوبست تو ہے جو نبوت کے ذریعہ سے کیا گیا ہے۔ اگر تم نبوت کو نہیں مانتے تو بتاؤ کہ تمہارے خیال میں خدا نے انسان کی ہدایت کے لیے اور کونسا انتظام کیا ہے ؟ اس کے جواب میں تم نہ یہ کہہ سکتے ہو کہ خدا نے ہمیں راستہ تلاش کرنے کے لیے عقل و فکر دے رکھی ہے، کیونکہ انسانی عقل و فکر پہلے ہی بیشمار مختلف راستے ایجاد کر بیٹھی ہے جو راہ راست کی صحیح دریافت میں اس کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے۔ اور نہ تم یہی کہہ سکتے ہو کہ خدا نے ہماری رہنمائی کا کوئی انتظام نہیں کیا ہے، کیونکہ خدا کے ساتھ اس سے بڑھ کر بدگمانی اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ وہ جانور ہونے کی حیثیت سے تو تمہاری پرورش اور تمہارے نشونما کا اتنا مفصل اور مکمل انتظام کرے، مگر انسان ہونے کی حیثیت سے تم کو یونہی تاریکیوں میں بھٹکنے اور ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الرحمٰن،  ٢ – ٣) ۔

 سورة النَّحْل  10

یعنی اگرچہ یہ بھی ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس ذمہ داری کو (جو نوع انسان کی رہنمائی کے لیے اس نے خود اپنے اوپر عائد کی ہے) اس طرح ادا کرتا کہ سارے انسانوں کو پیدائشی طور پر دوسری تمام بےاختیار مخلوقات کے مانند برسر ہدایت بنا دیتا۔ لیکن یہ اس کی مشیت کا تقاضا نہ تھا۔ اس کی مشیت ایک ایسی ذی اختیار مخلوق کو وجود میں لانے کی متقاضی تھی جو اپنی پسند اور اپنے انتخاب سے صحیح اور غلط، ہر طرح کے راستوں پر جانے کی آزادی رکھتی ہو۔ اسی آزادی کے استعمال کے لیے اس کو علم کے ذرائع دیے گئے، عقل و فکر کی صلاحیتیں دی گئیں، خواہش اور ارادے کی طاقتیں بخشی گئیں، اپنے اندر اور باہر کی بیشمار چیزوں پر تصرف کے اختیارات عطا کیے گئے، اور باطن و ظاہر میں ہر طرف بیشمار ایسے اسباب رکھ دیے گئے جو اس کے لیے ہدایت اور ضلالت، دونوں کے موجب بن سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ بےمعنی ہوجاتا اگر وہ پیدائشی طور پر راست رو بنادیا جاتا۔ اور ترقی کے ان بلند مدارج تک بھی انسان کا پہنچنا ممکن نہ رہتا جو صرف آزادی کے صحیح استعمال ہی کے نتیجے میں اس کو مل سکتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کے لیے جبری ہدایت کا طریقہ چھوڑ کر رسالت کا طریقہ اختیار فرمایا کرتا کہ انسان کی آزادی بھی برقرار رہے، اور اس کے امتحان کا منشا بھی پورا ہو، اور راہ راست بھی معقول ترین طریقہ سے اس کے سامنے پیش کردی جائے۔

القرآن – سورۃ نمبر 19 مريم

آیت نمبر 43

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤـاَبَتِ اِنِّىۡ قَدۡ جَآءَنِىۡ مِنَ الۡعِلۡمِ مَا لَمۡ يَاۡتِكَ فَاتَّبِعۡنِىۡۤ اَهۡدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا ۞

ترجمہ:

ابّا جان، میرے پاس ایک ایسا عِلم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا، آپ میرے پیچھے چلیں، میں آپ کو سیدھا راستہ بتاؤں گا

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 22 الحج

آیت نمبر 54

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَّلِيَـعۡلَمَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ اَنَّهُ الۡحَـقُّ مِنۡ رَّبِّكَ فَيُؤۡمِنُوۡا بِهٖ فَـتُخۡبِتَ لَهٗ قُلُوۡبُهُمۡ‌ ؕ وَاِنَّ اللّٰهَ لَهَادِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ‏ ۞

ترجمہ:

اور علم سے بہرہ مند لوگ جان لیں کہ یہ حق ہے تیرے ربّ کی طرف سے اور وہ اس پر ایمان لے آئیں اور ان کے دل اس کے آگے جُھک جائیں، یقیناً اللہ ایمان لانے والوں کو ہمیشہ سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔ 101

تفسیر:

سورة الْحَجّ  101

یعنی شیطان کی ان فتنہ پردازیوں کو اللہ نے لوگوں کی آزمائش، اور کھرے کو کھوٹے سے جدا کرنے کا ایک ذریعہ بنادیا ہے۔ بگڑی ہوئی ذہنیت کے لوگ انہی چیزوں سے غلط نتیجے اخذ کرتے ہیں اور یہ ان کے لیے گمراہی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ صاف ذہن کے لوگوں کو یہی باتیں نبی اور کتاب اللہ کے بر حق ہونے کا یقین دلاتی ہیں اور وہ محسوس کرلیتے ہیں کہ یہ سب شیطان کی شرارتیں ہیں اور یہ چیز انہیں مطمئن کردیتی ہے کہ یہ دعوت یقیناً خیر اور راستی کی دعوت ہے، ورنہ شیطان اس پر اس قدر نہ تلملاتا۔

سلسلہ کلام کو نظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو ان آیات کا مطلب صاف سمجھ میں آجاتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اس وقت جس مرحلے میں تھی اس کو دیکھ کر تمام ظاہر بیں نگاہیں یہ دھوکا کھا رہی تھیں کہ آپ اپنے مقصد میں ناکام ہوگئے ہیں۔ دیکھنے والے جو کچھ دیکھ رہے تھے وہ تو یہ تھا کہ ایک شخص، جس کی تمنا اور آرزو یہ تھی کہ اس کی قوم اس پر ایمان لائے، وہ تیرہ برس معاذ اللہ سر مارنے کے بعد آخر کار اپنے مٹھی بھر پیروؤں کو لے کر وطن سے نکل جانے پر مجبور ہوگیا ہے۔ اس صورت حال میں جب لوگ آپ کے اس بیان کو دیکھتے تھے کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور اس کی تائید میرے ساتھ ہے، اور قرآن کے ان اعلانات کو دیکھتے تھے کہ نبی کو جھٹلا دینے والی قوم پر عذاب آجاتا ہے، تو انہیں آپ کی اور قرآن کی صداقت مشتبہ نظر آنے لگتی تھی، اور آپ کے مخالفین اس پر بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے تھے کہ کہاں گئی وہ خدا کی تائید، اور کیا ہوئیں وہ عذاب کی وعیدیں، اب کیوں نہیں آجاتا وہ عذاب جس کے ہم کو ڈراوے دیے جاتے تھے۔ انہی باتوں کا جواب اس سے پہلے کی آیتوں میں دیا گیا تھا اور انہی کے جواب میں یہ آیات بھی ارشاد ہوئی ہیں۔ پہلے کی آیتوں میں جواب کا رخ کفار کی طرف تھا اور ان آیتوں میں اس کا رخ ان لوگوں کی طرف ہے جو کفار کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو رہے تھے۔ پورے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ 

 ” کسی قوم کا اپنے پیغمبر کی تکذیب کرنا انسانی تاریخ میں کوئی نیا واقعہ نہیں ہے، پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ پھر اس تکذیب کا جو انجام ہوا وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے تباہ شدہ قوموں کے آثار قدیمہ کی صورت میں موجود ہے۔ سبق لینا چاہو تو اس سے لے سکتے ہو۔ رہی یہ بات کہ تکذیب کرتے ہی وہ عذاب کیوں نہ آگیا جس کی وعیدیں قرآن کی بکثرت آیتوں میں کی گئی تھیں، تو آخر یہ کب کہا گیا تھا کہ ہر تکذیب فوراً ہی عذاب لے آتی ہے۔ اور نبی نے یہ کب کہا تھا کہ عذاب لانا اس کا اپنا کام ہے۔ اس کا فیصلہ تو خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ جلد باز نہیں ہے۔ پہلے بھی وہ عذاب لانے سے پہلے قوموں کو مہلت دیتا رہا ہے اور اب بھی دے رہا ہے۔ مہلت کا یہ زمانہ اگر صدیوں تک بھی دراز ہو تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ سب وعیدیں خالی خولی دھمکیاں ہی تھیں جو پیغمبر کے جھٹلانے والوں پر عذاب آنے کے متعلق کی گئی تھیں۔

پھر یہ بات بھی کوئی نئی نہیں ہے کہ پیغمبر کی آرزوؤں اور تمناؤں کے بر آنے میں رکاوٹیں واقع ہوں، یا اس کی دعوت کے خلاف جھوٹے الزامات اور طرح طرح کے شبہات و اعتراضات کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہو۔ یہ سب کچھ بھی تمام پچھلے پیغمبروں کی دعوتوں کے مقابلے میں ہوچکا ہے۔ مگر آخر کار اللہ تعالیٰ ان شیطانی فتنوں کا استیصال کردیتا ہے۔ رکاوٹوں کے باوجود دعوت حق فروغ پاتی ہے، اور محکم آیات کے ذریعے شبہات کے رخنے بھر دیے جاتے ہیں۔ شیطان اور اس کے چیلے ان تدبیروں سے اللہ کی آیات کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں، مگر اللہ انہی کو انسانوں کے درمیان کھوٹے اور کھرے کی تمیز کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔ اس ذریعہ سے کھرے آدمی دعوت حق کی طرف کھچ آتے ہیں اور کھوٹے لوگ چھٹ کر الگ ہوجاتے ہیں “۔

یہ ہے وہ صاف اور سیدھا مفہوم جو سیاق وسباق کی روشنی میں ان آیات سے حاصل ہوا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ایک روایت نے ان کی تفسیر میں اتنا بڑا گھپلا ڈال دیا کہ نہ صرف ان کے معنی کچھ سے کچھ ہوگئے، بلکہ سارے دین کی بنیاد ہی خطرے میں پڑگئی۔ ہم اس کا ذکر یہاں اس لیے کرتے ہیں کہ قرآن کے طالب علم فہم قرآن میں روایات سے مدد لینے کے صحیح اور غلط طریقوں کا فرق اچھی سمجھ سکیں اور انہیں معلوم ہوجائے کہ روایت پرستی میں ناروا غلو کیا نتائج پیدا کرتا ہے، اور قرآن کی غلط تفسیر کرنے والی روایات پر تنقید کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔

قصہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش قرآن میں کوئی ایسی بات نازل ہوجائے جس سے اسلام کے خلاف کفار قریش کی نفرت دور ہو اور وہ کچھ قریب آجائیں۔ یا کم از کم ان کے دین کے خلاف ایسی سخت تنقید نہ ہو جو انہیں بھڑکا دینے والی ہو۔ یہ تمنا آپ کے دل ہی میں تھی کہ ایک روز قریش کی ایک بڑی مجلس میں بیٹھے ہوئے آپ پر سورة نجم نازل ہوئی اور آپ نے اسے پڑھنا شروع کیا۔ جب آپ  اَفَرَاَیْتُمْ اللَّاتَ وَ الْعُزّٰی ہ وَمَنَاۃَ الثَّالِثَۃ الْاُخْریٰ ، پر پہنچے تو یکایک آپکی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے تلک الغرانقۃ العلیہ وان شفاعتھن لترجیٰ (یہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے ) ۔ اس کے بعد آگے پھر آپ سورة نجم کی آیات پڑھتے چلے گئے، یہاں تک کہ جب اختتام سورة پر آپ نے سجدہ کیا تو مشرک اور مسلمان سب سجدے میں گر گئے۔ کفار قریش نے کہا کہ اب ہمارا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا اختلاف باقی رہ گیا۔ ہم بھی تو یہی کہتے تھے کہ خالق و رازق اللہ ہی ہے، البتہ ہمارے یہ معبود اس کے حضور میں ہمارے شفیع ہیں۔ شام کو جبریل آئے اور انہوں نے کہا یہ آپ نے کیا کیا ؟ یہ دونوں فقرے تو میں نہیں لایا تھا۔ اس پر آپ سخت مغموم ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے وہ آیت نازل کی جو سورة بنی اسرائیل، رکوع 8 میں ہے کہ  وَاِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہ ……….. ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیْنَا نَصِیْراً ، یہ چیز برابر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رنج و غم میں مبتلا کیے رہی یہاں تک کہ سورة حج کی یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی کہ تم سے پہلے بھی انبیاء کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے۔ ادھر یہ واقعہ کہ قرآن سن کر آنحضرت کے ساتھ قریش کے لوگوں نے بھی سجدہ کیا، مہاجرین حبشہ تک اس رنگ میں پہنچا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کفار مکہ کے درمیان صلح ہوگئی ہے۔ چناچہ بہت سے مہاجرین مکہ واپس آگئے۔ مگر یہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ صلح کی خبر غلط تھی، اسلام اور کفر کی دشمنی جوں کی توں قائم ہے۔

یہ قصہ ابن جریر اور بہت سے مفسرین نے اپنی تفسیروں میں، ابن سعد نے طبقات میں، الواحدی نے اسباب النزول میں، موسیٰ بن عقبہ نے مغازی میں، ابن اسحاق نے سیرت میں اور ابن ابی حاتم، ابن النذر، بَذّار، ابن مردویہ اور طبرانی نے اپنے احادیث کے مجموعوں میں نقل کیا ہے۔ جن سندوں سے یہ نقل ہوا ہے وہ محمد بن قیس، محمد بن کعب قرظی، عروہ بن زبیر، ابوصالح، ابوالعالیہ، سعید بن جبیر، ضحاک، ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث، تَتَدہ، مجاہد، سُدّی، ابن شہاب زہری، اور ابن عباس پر ختم ہوتی ہیں (ابن عباس کے سوا ان میں سے کوئی صحابی نہیں ہے ) ۔ یہ قصے کی تفصیلات میں چھوٹے چھوٹے اختلافات کو چھوڑ کردو بہت بڑے اختلافات ہیں۔ ایک یہ کہ بتوں کی تعریف میں جو کلمات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب کیے گئے ہیں وہ قریب قریب ہر روایت میں دوسری روایت سے مختلف ہیں۔ ہم نے ان کا استقصاء کرنے کی کوشش کی تو 15 عبارتیں الگ الگ الفاظ میں پائیں۔ دوسرا بڑا اختلاف یہ ہے کہ کسی روایت کی رو سے یہ الفاظ دوران وحی میں شیطان نے آپ پر القا کردیے اور آپ سمجھے کہ یہ بھی جبریل لائے ہیں۔ کسی روایت میں ہے کہ یہ الفاظ اپنی اس خواہش کے زیر اثر سہواً آپ کی زبان سے نکل گئے۔ کسی میں ہے کہ اس وقت آپ کو اونگھ آگئی تھی اور اس حالت میں یہ الفاظ نکلے۔ کسی کا بیان ہے کہ آپ نے یہ قصداً کہے مگر استفہام انکاری کے طور پر کہے۔ کسی کا قول ہے کہ شیطان نے آپ کی آواز ملا کر یہ الفاظ کہہ دیے اور سمجھا یہ گیا کہ آپ نے کہے ہیں۔ اور کسی کے نزدیک کہنے والا مشرکین میں سے کوئی شخص تھا۔

ابن کثیر، بیہقی، قاضی عیاض، ابن خزیمہ، قاضی ابوبکر ابن العزی، امام رازی، قُطبی، بدر الدین عینی، شو کافی، آلوسی وغیرہ حضرات اس قصے کو بالکل غلط قرار دیتے ہیں۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ ” جتنی سندوں سے یہ روایت ہوا ہے، سب مرسل اور منقطع ہیں، مجھے کسی صحیح متصل سند سے یہ نہیں ملا۔ ” بیہقی کہتے ہیں کہ ” از روئے نقل یہ قصہ ثابت نہیں ہے “۔ ابن خزیمہ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ” یہ زنادقہ کا گھڑا ہوا ہے “۔ قاضی عیاض کہتے ہیں کہ ” اس کی کمزوری اسی سے ظاہر ہے کہ صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے کسی نے بھی اس کو اپنے ہاں نقل نہیں کیا اور نہ یہ کسی صحیح متصل بےعیب سند کے ساتھ ثقہ راویوں سے منقول ہوا ہے “۔ امام رازی، قاضی ابوبکر جصاص جیسے نامور فقیہ اور زمخشری جیسے عقلیت پسند مفسر، اور ابن جریر جیسے امام تفسیر و تاریخ و فقہ اس کو صحیح مانتے ہیں اور اسی کو آیت زیر بحث کی تفسیر قرار دیتے ہیں۔ ابن حجر کا محدثانہ استدلال یہ ہے کہ 

 ” سعید بن جبیر کے طریق کے سوا باقی جن طریقوں سے یہ روایت آتی ہے وہ یا تو ضعیف ہیں یا منقطع، مگر طریقوں کی کثرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کی کوئی اصل ہے ضرور۔ علاوہ بریں یہ ایک طریقہ سے متصلاً بسند صحیح بھی نقل ہوا ہے جسے بذار نے نکالا ہے (مراد ہے یوسف بن حماد عن اَمَیّہ بن خالد عن شُعْبہ عن ابی بشر عن سعید بن جبیر عن ابن عباس) اور دو طریقوں سے یہ اگرچہ مرسل ہے مگر اس کے راوی صحیحین کی شرط کے مطابق ہیں۔ یہ دونوں روایتیں طبری نے نقل کی ہیں۔ ایک بطریق یونس بن یزید عن ابن شہاب، دوسری بطریق معمر بن سلیمان و حماد بن سلمہ عن داؤد بن ابی ہند عن ابی العالیہ “۔

جہاں تک موافقین کا تعلق ہے، وہ تو اسے صحیح مان ہی بیٹھے ہیں۔ لیکن مخالفین نے بھی بالعموم اس پر تنقید کا حق ادا نہیں کیا ہے۔ ایک گروہ اسے اس لیے رد کرتا ہے کہ اس کی سند اس کے نزدیک قوی نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اگر سند قوی ہوتی تو یہ حضرات اس قصے کو مان لیتے۔ دوسرا گروہ اسے اس لیے رد کرتا ہے کہ اس سے تو سارا دین ہی مشتبہ ہوا جاتا ہے اور دین کی ہر بات کے متعلق شک پیدا ہوجاتا ہے کہ نہ معلوم اور کہاں کہاں شیطانی اغوا یا نفسانی آمیزشوں کا دخل ہوگیا ہو۔ حالانکہ اس نوعیت کا استدلال ان لوگوں کو تو مطمئن کرسکتا ہے جو ایمان لانے کے عزم پر قائم ہوں، مگر دوسرے لوگ جو پہلے ہی شکوک میں مبتلا ہیں، یا جو اب تحقیق کر کے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ ایمان لائیں یا نہ لائیں، ان کے دل میں تو یہ جذبہ پیدا نہیں ہوسکتا کہ جن جن چیزوں سے یہ دین مشتبہ قرار پاتا ہو انہیں رد کردیں۔ وہ گو کہیں گے کہ جب کم از کم ایک نامور صحابی اور بکثرت تابعین و تبع تابعین، اور متعدد و معتبر راویان حدیث کی روایت سے ایک واقعہ ثابت ہو رہا ہے تو اسے صرف اس بنا پر کیوں رد کردیا جائے کہ ان سے آپ کا دین مشتبہ ہوا جاتا ہے ؟ اس کے بجائے آپ کے دین کو مشتبہ کیوں نہ سمجھا جائے جب کہ یہ واقعہ اسے مشتبہ ثابت کر ہی رہا ہے ؟

اب دیکھنا چاہیے کہ تنقید کا وہ صحیح طریقہ کیا ہے جس سے اگر اس قصے کو پرکھ کر دیکھا جائے تو یہ ناقابل قبول قرار پاتا ہے، چاہے اس کی سند کتنی ہی قوی ہو، یا قوی ہوتی۔

پہلی چیز خود اس کی اندرونی شہادت ہے جو اسے غلط ثابت کرتی ہے۔ قصے میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ہجرت حبشہ واقع ہوچکی تھی، اور اس واقعے کی خبر پا کر مہاجرین حبشہ میں سے ایک گروہ مکہ واپس آگیا۔ اب ذرا تاریخوں کا فرق ملاحظہ کیجیے 

۔۔۔۔ ہجرت حبشہ معتبر تاریخی روایتوں کی رو سے رجب 5 نبوی میں واقع ہوئی، اور مہاجرین حبشہ کا ایک گروہ مصالحت کی غلط خبر سن کر تین مہینے بعد (یعنی اسی سال تقریباً شوال کے مہینے میں) مکہ واپس آگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ واقعہ لا محالہ 5 نبوی کا ہے۔

۔۔۔۔ سورة بنی اسرائیل جس کی ایک آیت کے متعلق بیان کیا جارہا ہے کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فعل پر بطور عتاب نازل ہوئی تھی، معراج کے بعد اتری ہے، اور معراج کا زمانہ معتبر ترین روایات کی رو سے 11 یا 12 نبوی کا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس فعل پر پانچ چھ سال جب گزر چکے تب اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا،

۔۔۔۔ اور زیر بحث آیت، جیسا کہ اس کا سیاق وسباق صاف بتارہا ہے 1 ہجری میں نازل ہوئی ہے۔ یعنی عتاب پر بھی جب مزید دو ڈھائی سال گزر لیے تب اعلان کیا گیا کہ یہ آمیزش تو القائے شیطانی سے ہوگئی تھی، اللہ نے اسے منسوخ کردیا ہے۔

کیا کوئی صاحب عقل آدمی باور کرسکتا ہے کہ آمیزش کا فعل آج ہو، عتاب چھ سال بعد، اور آمیزش کی تنسیخ کا اعلان 9 سال بعد ؟

پھر اس قصے میں بیان کیا گیا کہ یہ آمیزش سورة نجم میں ہوئی تھی اور اس طرح ہوئی کہ ابتدا سے آپ اصل سورة کے الفاظ پڑھتے چلے آ رہے تھے، یکایک مَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْریٰ پر پہنچ کر آپ نے بطور خود یا شیطانی اغوا سے یہ فقرہ ملایا، اور آگے پھر سورة نجم کی اصل آیات پڑھتے چلے گئے۔ اس کے متعلق کہا جارہا ہے کہ کفار مکہ اسے سن کر خوش ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ اب ہمارا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اختلاف ختم ہوگیا۔ مگر سورة نجم کے سلسلہ کلام میں اس الحاقی فقرے کو شامل کر کے تو دیکھیے 

 ” پھر تم نے کچھ غور بھی کیا ان لات اور عزیٰ پر اور تیسری ایک اور (دیوی) مناۃ پر ؟ یہ بلند پایہ دیویاں ہیں، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے۔ کیا تمہارے لیے تو ہوں بیٹے اور اس (یعنی اللہ) کے لیے ہوں بیٹیاں ؟ یہ تو بڑی بےانصافی کی تقسیم ہے۔ دراصل یہ کچھ نہیں ہیں مگر چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ لوگ محض گمان اور من مانے خیالات کی پیروی کر رہے ہیں، حالانکہ ان کے رب کی طرف سے صحیح رہنمائی آگئی ہے “۔

دیکھیے، اس عبارت میں خط کشیدہ فقرے نے کیسا صریح تضاد پیدا کردیا ہے۔ ایک سانس میں کہا جاتا ہے کہ واقعی تمہاری یہ دیویاں بلند مرتبہ رکھتی ہیں، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے۔ دوسرے ہی سانس میں پلٹ کر ان پر چوٹ کی جاتی ہے کہ بےوقوفو، یہ تم نے خدا کے لیے بیٹیاں کیسی تجویز کر رکھی ہیں ؟ اچھی دھاندلی ہے کہ تمہیں تو ملیں بیٹے اور خدا کے حصے میں آئیں بیٹیاں۔ یہ سب تمہاری من گھڑت ہے جسے خدا کی طرف سے کوئی سند اعتبار حاصل نہیں ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے اس سوال کو جانے دیجیے کہ یہ صریح بےتکی باتیں کسی مرد عاقل کی زبان سے نکل بھی سکتی ہیں یا نہیں۔ مان لیجیے کہ شیطان نے غلبہ پا کر یہ الفاظ زبان سے نکلوا دیے۔ مگر کیا قریش کا وہ سارا مجمع جو اسے سن رہا تھا، بالکل ہی پاگل ہوگیا تھا کہ بعد کے فقروں میں ان تعریفی کلمات کی کھلی کھلی تردید سن کر بھی وہ یہی سمجھتا رہا کہ ہماری دیویوں کی واقعی تعریف کی گئی ہے ؟ سورة نجم کے آخر تک کا پورا مضمون اس ایک تعریفی فقرے کے بالکل خلاف ہے۔ کس طرح باور کیا جا سلتا ہے کہ قریش کے لوگ اسے آخر تک سننے کے بعد یہ پکار اٹھے ہونگے کہ چلو آج ہمارا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اختلاف ختم ہوگیا ؟

یہ تو ہے اس قصے کی اندرونی شہادت جو اس کے سراسر لغو اور مہمل ہونے کی گواہی دے رہی ہے۔ اس کے بعد دوسری چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ اس میں تین آیتوں کی جو شان نزول بیان کی جا رہی ہے آیا قرآن کی ترتیب بھی اس کو قبول کرتی ہے ؟ قصے میں بیان یہ کیا جا رہا ہے کہ آمیزش سورة نجم میں کی گئی تھی، جو 5 نبوی میں نازل ہوئی۔ اس آمیزش پر سورة بنی اسرائیل والی آیت میں عتاب فرمایا گیا، اور پھر اس کی تنسیخ اور واقعہ کی توجیہ سورة حج کی زیر بحث آیت میں کی گئی۔ اب لامحالہ دو صورتوں میں سے کوئی ایک ہی سورت پیش آئی ہوگی۔ یا تو عتاب اور تنسیخ والی آیتوں کی اس زمانے میں نازل ہوئی ہوں جبکہ آمیزش کا واقعہ پیش آیا، یا پھر عتاب والی آیت سورة بنی اسرائیل کے ساتھ اور تنسیخ والی آیت سورة حج کے ساتھ نازل ہوئی ہو۔ اگر پہلی صورت ہے تو یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ دونوں آیتوں سورة نجم ہی میں نہ شامل کی گئیں بلکہ عتاب والی آیت والی آیت کو چھ سال تک یوں ہی ڈالے رکھا گیا اور سورة بنی اسرائیل جب نازل ہوئی تب کہیں اس میں لا کر چپکا دیا گیا۔ پھر تنسیخ والی آیت مزید دو ڈھائی برس تک پڑی رہی اور سورة حج کے نزول تک اسے کہیں نہ چسپاں کیا گیا۔ کیا قرآن کی ترتیب اسی طرح ہوئی ہے کہ ایک موقع کی نازل شدہ آیتیں الگ الگ بکھری پڑی رہتی تھیں اور برسوں کے بعد کسی کو کسی سورت میں اور کسی کو کسی دوسری سورت میں ٹانک دیا جاتا تھا ؟ لیکن اگر دوسری صورت ہے کہ عتاب والی آیت واقعہ کے 6 سال بعد اور تنسیخ والی آیت آٹھ نو سال بعد نازل ہوئی، تو علاوہ اس بےت کے پن کے جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورة بنی اسرائیل اور سورة حج میں ان کے نزول کا موقع کیا ہے۔

یہاں پہنچ کر نقد صحیح کا تیسرا قاعدہ ہمارے سامنے آتا ہے، یعنی یہ کہ کسی آیت کی جو تفسیر بیان کی جا رہی ہو اسے دیکھا جائے کہ آیا قرآن کا سیاق وسباق بھی اسے قبول کرتا ہے یا نہیں۔ سورة بنی اسرائیل کا آٹھواں رکوع پڑھ کر دیکھیے، اور اس سے پہلے اور بعد کے مضمون پر بھی نگاہ ڈال لیجیے اس سلسلہ کلام میں آخر کیا موقع اس بات کا نظر آتا ہے کہ چھ سال پہلے کے ایک واقعہ پر نبی کو ڈانٹ بتائی جائے (قطع نظر اس سے کہ آیت  اِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ میں نبی پر کوئی ڈانٹ ہے بھی یا نہیں، اور آیت کے الفاظ کفار کے فتنے میں نبی کے مبتلا ہوجانے کی تردید کر رہے یا تصدیق) ۔ اسی طرح سورة حج آپ کے سامنے موجود ہے۔ آیت زیر بحث سے پہلے کا مضمون بھی پڑھیے اور بعد کا بھی دیکھیے۔ کیا کوئی معقول وجہ آپ کی سمجھ میں آتی ہے کہ اس سیاق وسباق میں یکایک یہ مضمون کیسے آگیا کہ ” اے نبی، 9 سال پہلے قرآن میں آمیزش کر بیٹھنے کی جو حرکت تم سے ہوگئی تھی اس پر گھبراؤ نہیں، پہلے انبیاء سے بھی شیطان یہ حرکتیں کراتا رہا ہے، اور جب کبھی انبیاء اس طرح کا فعل کر جاتے ہیں تو اللہ اس کو منسوخ کر کے اپنی آیات کو پھر پختہ کردیتا ہے۔ “

ہم اس سے پہلے بھی بار ہا کہہ چکے ہیں، اور یہاں پھر اس کا اعادہ کرتے ہیں کہ کوئی روایت، خواہ اس کی سند آفتاب سے بھی زیادہ روشن ہو، ایسی صورت میں قابل قبول نہیں ہو سکتی جبکہ اس کا متن اس کے غلط ہونے کی کھلی کھلی شہادت دے رہا ہو اور قرآن کے الفاظ، سیاق وسباق، ترتیب، ہر چیز اسے قبول کرنے سے انکار کر رہی ہو۔ یہ دلائل تو ایک مشکک اور بےلاگ محقق کو بھی مطمئن کردیں گے کہ یہ قصہ قطعی غلط ہے۔ رہا مومن، تو وہ سے ہرگز نہیں مان سکتا جب کہ وہ علانیہ یہ دیکھ رہا ہے کہ یہ روایت قرآن کی ایک نہیں بیسیوں آیتوں سے ٹکراتی ہے۔ ایک مسلمان کے لیے یہ مان لینا بہت آسان ہے کہ خود اس روایت کے راویوں کو شیطان نے بہکا دیا، بہ نسبت اس کے کہ وہ یہ مان لے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی اپنی خواہش نفس سے قرآن میں ایک لفظ بھی ملا سکتے تھے، یا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی یہ خیال آسکتا تھا کہ توحید کے ساتھ شرک کی کچھ آمیزش کر کے کفار کو راضی کیا جائے، یا آپ اللہ تعالیٰ کے فرامین کے بارے میں کبھی یہ آرزو کرسکتے تھے کہ کاش اللہ میاں ایسی کوئی بات نہ فرما بیٹھیں جس سے کفار ناراض ہوجائیں، یا یہ کہ آپ اسی غلط فہمی میں رہیں کہ یہ بھی جبریل ہی لائے ہیں۔ ان میں سے ایک ایک بات قرآن کی کھلی کھلی تصریحات کے خلاف ہے اور ان ثابت شدہ عقائد کے خلاف ہے جو ہم قرآن اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں رکھتے ہیں۔ خدا کی پناہ اس روایت پرستی سے جو محض سند کا اتصال یا راویوں کی ثقاہت یا طرق روایت کی کثرت دیکھ کر کسی مسلمان کو خدا کی کتاب اور اس کے رسول کے بارے میں ایسی سخت باتیں بھی تسلیم کرنے پر آمادہ کر دے۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس شک کو بھی دور کردیا جائے جو راویان حدیث کی اتنی بڑی تعداد کو اس قصے کی روایت میں مبتلا ہوتے دیکھ کر دلوں میں پیدا ہوتا ہے۔ ایک شخص سوال کرسکتا ہے کہ اگر اس قصے کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پر اتنا بڑا بہتان حدیث کے اتنے راویوں کے ذریعہ سے، جن میں بعض بڑے نامور ثقہ بزرگ ہیں، اشاعت کیسے پا گیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے اسباب کا سراغ ہم کو خود حدیث ہی کے ذخیرے میں مل جاتا ہے۔ بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی اور مسند احمد میں اصل واقعہ اس طرح آیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة نجم کی تلاوت فرمائی، اور خاتمے پر جب آپ نے سجدہ کیا تو تمام حاضرین، مسلم اور مشرک سب، سجدے میں گر گئے۔ واقعہ بس اتنا ہی تھا۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہ تھی۔ اول تو قرآن کا زور کلام اور انتہائی پر تاثیر انداز بیان، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے اس کا ایک ملہمانہ شان کے ساتھ ادا ہونا، اس کو سن کر اگر پورے مجمع پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہوگئی ہو اور آپ کے ساتھ سارا مجمع سجدے میں گرگیا ہو تو کچھ بعید نہیں ہے۔ یہ تو وہ چیز تھی جس پر قریش کے لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ شخص جادوگر ہے۔ البتہ معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں قریش کے لوگ اپنے اس وقتی تأثر پر کچھ پشیمان سے ہوئے ہوں گے اور ان میں سے کسی نے یا بعض لوگوں نے اپنے اس فعل کی یہ توجیہ کی ہوگی کہ صاحب، ہمارے کانوں نے تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے اپنے معبودوں کی تعریف میں کچھ کلمات سنے تھے اس لیے ہم بھی ان کے ساتھ سجدے میں گر گئے۔ دوسری طرف یہی واقعہ مہاجرین حبشہ تک اس شکل میں پہنچا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قریش کے درمیان صلح ہوگئی ہے، کیونکہ دیکھنے والے نے آپ کو اور مشرکین و مومنین سب کو ایک ساتھ سجدہ کرتے دیکھا تھا۔ یہ افواہ ایسی گرم ہوئی کہ مہاجرین میں سے تقریباً 33 آدمی مکہ میں واپس آگئے۔ ایک صدی کے اندر یہ تینوں باتیں، یعنی قریش کا سجدہ اس سجدے کی یہ توجیہ، اور مہاجرین حبشہ کی واپسی، مل جل کر ایک قصے کی شکل اختیار کر گئیں اور بعض ثقہ لوگ تک اس کی روایت میں مبتلا ہوگئے۔ انسان آخر انسان ہے۔ بڑے سے بڑے نیک اور ذی فہم آدمی سے بھی بسا اوقات لغزش ہوجاتی ہے اور اس کی لغزش عام لوگوں کی لغزش سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ عقیدت میں بےجا غلو رکھنے ولے ان بزرگوں کی صحیح باتوں کے ساتھ ان کی غلط باتوں کو بھی آنکھیں بند کر کے ہضم کر جاتے ہیں۔ اور بد طینت لوگ چھانٹ چھانٹ کر ان کی غلطیاں جمع کرتے ہیں اور انہیں اس بات کے لیے دلیل بناتے ہیں کہ سب کچھ جو ان کے ذریعے سے ہمیں پہنچا ہے، نذر آتش کردینے کے لائق ہے۔

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل

آیت نمبر 24

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَجَدْتُّهَا وَقَوۡمَهَا يَسۡجُدُوۡنَ لِلشَّمۡسِ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيۡطٰنُ اَعۡمَالَهُمۡ فَصَدَّهُمۡ عَنِ السَّبِيۡلِ فَهُمۡ لَا يَهۡتَدُوۡنَۙ ۞

ترجمہ:

میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے سُورج کے آگے سجدہ کرتی ہے30“ ۔۔۔۔ 31شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے32 اور انہیں شاہراہ سے روک دیا، اس وجہ سے وہ یہ سیدھا راستہ نہیں پاتے

تفسیر:

سورة النمل  30

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم اس زمانے میں آفتاب پرستی کے مذہب کی پیرو تھی، عرب کی قدیم روایات سے بھی اس کا یہی مذہب معلوم ہوتا ہے، چناچہ ابن اسحاق علمائے انساب کا یہ قول نقل کرتا ہے کہ سبا کی قوم دراصل ایک مورث اعلی کی طرف منسوب ہے جس کا نام عبد شمس (بندہ آفتاب یا سورج کا پرستار) اور لقب سبا تھا۔ بنی اسرائیل کی روایات بھی اسی کی تائید کرتی ہیں، ان میں بیان کیا گیا ہے کہ ہدہد جب حضرت سلیمان کا خط لیکر پہنچا تو ملکہ سبا سورج دیوتا کی پرستش کے لیے جارہی تھی۔ ہدہد نے راستے ہی میں وہ خط ملکہ کے سامنے پھینک دیا۔

 سورة النمل   31

انداز کلام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں سے آخر پیرا گراف تک کی عبادت ہدہد کے کلام کا جز نہیں ہے بلکہ سورج کے آگے سجدہ کرتی ہے پر اس کی بات ختم ہوگئی اور اس کے بعد اب یہ ارشاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر بطور اضافہ ہے۔ اس قیاس کو جو چیز تقویت دیتی ہے وہ یہ فقرہ ہے وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو۔ ان الفاظ سے یہ گمان غالب ہوتا ہے کہ متکلم ہدہد اور مخاطب حضرت سلیمان کے اہل دربار نہیں ہیں بلکہ متکلم اللہ تعالیٰ اور مخاطب مشرکین مکہ ہیں جن کو نصیحت کرنے ہی کے لیے یہ قصہ سنایا جارہا ہے، مفسرین میں سے علامہ آلوسی، صاحب روح المعانی بھی اسی قیاس کو ترجیح دیتے ہیں۔

 سورة النمل   32

یعنی دنیا کی دولت کمانے اور اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ شاندار بنانے کے جس کام میں وہ منہمک تھے، شیطان نے ان کو بجھا دیا کہ بس یہی عقل و فکر کا ایک مصروف اور قوائے ذہنی و جسمانی کا ایک استعمال ہے، اس سے زیادہ کسی چیز پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی حاجت ہی نہیں ہے کہ تم خواہ مخواہ اس فکر میں پڑو کہ اس ظاہر حیات دنیا کے پیچھے حقیقت واقعیہ کیا ہے اور تمہارے مذہب، اخلاق، تہذیب اور نظام حیات کی بنیادیں اس حقیقت سے مطابقت رکھتی ہیں یا سراسر اس کے خلاف جارہی ہیں، شیطان نے ان کو مطمئن کردیا کہ جب تم دنیا میں دولت اور طاقت اور شان و شوکت کے لحاظ سے بڑھتے ہی چلے جارہے ہو تو پھر تمہیں یہ سوچنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ ہمارے یہ عقائد اور فلسفے اور نظریے ٹھیک ہیں یا نہیں۔ ان کے ٹھیک ہونے کی تو یہی ایک دلیل کافی ہے کہ تم مزے سے دولت کما رہے ہو اور عیش اڑا رہے ہو۔

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 36 يس

آیت نمبر 61

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَّاَنِ اعۡبُدُوۡنِىۡ  ؔ‌ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

اورمیری ہی بندگی کرو، یہ سیدھا راستہ ہے؟53

تفسیر:

سورة یٰسٓ  53

یہاں پھر اللہ تعالیٰ نے ” عبادت ” کو اطاعت کے معنی میں استعمال فرمایا ہے۔ ہم اس سے پہلے تفہیم القرآن میں متعدد مقامات پر اس مضمون کی تشریح کرچکے ہیں) ملاحظہ ہو جلد اول، صفحات 134 ۔ 398 ۔ 577 ۔ 578 ۔ 586 ۔ جلد دوم، صفحات 189 ۔ 482 ۔ 483 ۔ جلد سوم، صفحات 31 ۔ 69 ۔ 656 ۔ جلد چہارم، سورة سبا، حاشیہ 63) اس سلسلہ میں وہ نفیس بحث بھی قابل ملاحظہ ہے جو اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے امام رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں  لَا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰن کے معنی ہیں لا تطیعوہ (اس کی اطاعت نہ کرو) ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کو محض سجدہ کرنا ہی ممنوع نہیں ہے بلکہ اس کی اطاعت کرنا اور اس کے حکم کی تابعداری کرنا بھی ممنوع ہے۔ لہٰذا طاعت عبادت ہے “۔ اس کے بعد امام صاحب یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر عبادت بمعنی طاعت ہے تو کیا آیت اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ میں ہم کو رسول اور امراء کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ؟ پھر اس سوال کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ  ” ان کی اطاعت جبکہ اللہ کے حکم سے ہو تو وہ اللہ ہی کی عبادت اور اسی کی اطاعت ہوگی۔ کیا دیکھتے نہیں ہو کہ ملائکہ نے اللہ کے حکم سے آدم کو سجدہ کیا اور یہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ تھی۔ امراء کی طاعت ان کی عبادت صرف اس صورت میں ہوگی جبکہ ایسے معاملات میں ان کی اطاعت کی جائے جن میں اللہ نے ان کی اطاعت کا اذن نہیں دیا ہے “۔ پھر فرماتے ہیں  ” اگر کوئی شخص تمہارے سامنے آئے اور تمہیں کسی چیز کا حکم دے تو دیکھو کہ اس کا یہ حکم اللہ کے حکم کے موافق ہے یا نہیں۔ موافق نہ ہو تو شیطان اس شخص کے ساتھ ہے، اگر اس حالت میں تم نے اس کی اطاعت کی تو تم نے اس کی اور اس کے شیطان کی عبادت کی۔ اسی طرح اگر تمہارا نفس تمہیں کسی کام کے کرنے پر اکسائے تو دیکھو کہ شرع کی رو سے وہ کام کرنے کی اجازت ہے یا نہیں۔ اجازت نہ ہو تو تمہارا نفس خود شیطان ہے یا شیطان اس کے ساتھ ہے۔ اگر تم نے اس کی پیروی کی تو تم اس کی عبادت کے مرتکب ہوئے “۔ آگے چل کر وہ پھر فرماتے ہیں  ” مگر شیطان کی عبادت کے مراتب مختلف ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ایک کام کرتا ہے اور اس کے اعضاء کے ساتھ اس کی زبان بھی اس کی موافقت کرتی ہے اور دل بھی اس میں شریک ہوتا ہے۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اعضاء وجوارح سے تو آدمی ایک کام کرتا ہے مگر دل اور زبان اس کام میں شریک نہیں ہوتے۔ بعض لوگ ایک گناہ کا ارتکاب اس حال میں کرتے ہیں کہ دل ان کا اس پر راضی نہیں ہوتا اور زبان ان کی اللہ سے مغفرت کر رہی ہوتی ہے اور وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم یہ برا کام کر رہے ہیں۔ یہ محض ظاہری اعضاء سے شیطان کی عبادت ہے۔ کچھ اور لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ٹھنڈے دل سے جرم کرتے ہیں اور زبان سے بھی اپنے اس فعل پر خوشی و اطمینان کا اظہار کرتے ہیں۔۔ یہ ظاہر و باطن دونوں میں شیطان کے عابد ہیں۔ ” (تفسیر کبیر۔ ج 7 ۔ ص 103 ۔ 104)

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر

آیت نمبر 41

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَيۡكَ الۡكِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالۡحَقِّ‌ ۚ فَمَنِ اهۡتَدٰى فَلِنَفۡسِهٖ‌ ۚ وَمَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيۡهَا‌ ۚ وَمَاۤ اَنۡتَ عَلَيۡهِمۡ بِوَكِيۡلٍ  ۞

ترجمہ:

(اے نبیؐ )ہم نے سب انسانوں کے لیے کتابِ برحق تم پر نازل کر دی ہے۔ اب جو سیدھا راستہ اختیار کرے گا اپنے لیے کرے گا اور جو بھٹکے گا اُس کے بھٹکنے کا وبال اُسی پر ہوگا، تم اُن کے ذمّہ دار نہیں ہو۔ 59  ؏

تفسیر:

سورة الزُّمَر  59

یعنی تمہارے سپرد انہیں راہ راست پر لے آنا نہیں ہے۔ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ ان کے سامنے راہ راست پیش کردو۔ اس کے بعد اگر یہ گمراہ رہیں تو تم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف

آیت نمبر 61

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِنَّهٗ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمۡتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُوۡنِ‌ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

اور وہ دراصل قیامت کی ایک نشانی ہے،55  پس تم اُس میں شک نہ کرو ، اور میری بات مان لو، یہی سیدھا راستہ ہے

تفسیر:

سورة الزُّخْرُف  55

اس فقرے کا یہ ترجمہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ قیامت کے علم کا ایک ذریعہ ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ” وہ ‘’‘ سے کیا چیز مراد ہے ؟ حضرت حسن بصری اور سعید بن جبیر کے نزدیک اس سے مراد قرآن ہے، یعنی قرآن سے آدمی یہ علم حاصل کرسکتا ہے کہ قیامت آئے گی۔ لیکن یہ تفسیر سیاق وسباق سے بالکل غیر متعلق ہے۔ سلسلہ کلام میں کوئی قرینہ ایسا موجود نہیں ہے جس کی بنا پر یہ کہا جاسکے کہ اشارہ قرآن کی طرف ہے۔ دوسرے مفسرین قریب قریب بالاتفاق یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ بن مریم ہیں اور یہی سیاق وسباق کے لحاظ سے درست ہے۔ اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنجناب کو قیامت کی نشانی یا قیامت کے علم کا ذریعہ کس معنی میں فرمایا گیا ہے ؟ ابن عباس، مجاہد، عکرمہ، قتادہ، سدی، ضحاک، ابوا العالیہ اور ابو مالک کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ کا نزول ثانی ہے جس کی خبر بکثرت احادیث میں وارد ہوئی ہے، اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ جب دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے تو معلوم ہوجائے گا کہ قیامت اب قریب ہے۔ لیکن ان بزرگوں کی جلالت قدر کے باوجود یہ ماننا مشکل ہے کہ اس آیت میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کو قیامت کی نشانی یا اس کے علم کا ذریعہ کہا گیا ہے۔ اس لیے کہ بعد کی عبارت یہ معنی لینے میں مانع ہے۔ ان کا دوبارہ آنا تو قیامت کے علم کا ذریعہ صرف ان لوگوں کے لیے بن سکتا ہے جو اس زمانہ میں موجود ہوں یا اس کے بعد پیدا ہوں۔ کفار مکہ کے لیے آخر وہ کیسے ذریعہ علم قرار پاسکتا تھا کہ ان کو خطاب کر کے یہ کہنا صحیح ہوتا کہ ” پس تم اس میں شک نہ کرو “۔ لہٰذا ہمارے نزدیک صحیح تفسیر وہی ہے جو بعض دوسرے مفسرین نے کی ہے کہ یہاں حضرت عیسیٰ کے بےباپ پیدا ہونے اور ان کے مٹی سے پرندہ بنانے اور مردے جلانے کو قیامت کے امکان کی ایک دلیل قرار دیا گیا ہے، اور ارشاد خداوندی کا منشا یہ ہے کہ جو خدا باپ کے بغیر بچہ پیدا کرسکتا ہے، اور جس خدا کا ایک بندہ مٹی کے پتلے میں جان ڈال سکتا اور مردوں کو زندہ کرسکتا ہے اس کے لیے آخر تم اس بات کو کیوں ناممکن سمجھتے ہو کہ وہ تمہیں اور تمام انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دے۔

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف

آیت نمبر 64

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّىۡ وَرَبُّكُمۡ فَاعۡبُدُوۡهُ‌ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی میرا ربّ بھی اور تمہارا ربّ بھی۔ اُسی کی تم عبادت کرو ، یہی سیدھا راستہ ہے۔57 “

تفسیر:

سورة الزُّخْرُف  57

 یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ میں خدا ہوں یا خدا کا بیٹا ہوں اور تم میری عبادت کرو، بلکہ ان کی دعوت وہی تھی جو دوسرے تمام انبیاء کی دعوت تھی اور اب جس کی طرف محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کو بلا رہے ہیں۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، آل عمران، حواشی ٤٥ تا ٤٨، النساء، حواشی ٢١٣۔ ٢١٧۔ ٢١٨، المائدہ، حواشی ١٠٠۔ ١٣٠، جلد سوم، مریم، حواشی ٢١ تا ٢٣) ۔

الحمد للہ  رب العالمین  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فبروری ۔۔۔25۔۔۔2019

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *