تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء – آیت نمبر 143
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
مُذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَٰلِكَ لَا إِلَىٰ هَٰؤُلَاءِ وَلَا إِلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا
کفر و ایمان کے درمیان ڈانوا ڈول ہیں۔ نہ پورے اس طرف ہیں نہ پورے اُس طرف ۔ جسے اللہ نے بھٹکا دیا ہو اس کے لیے تم کوئی راستہ نہیں پا سکتے۔(1)
تشریح (1)
یعنی جس نے خدا کے کلام اور اس کے رسول کی سیرت سے ہدایت نہ پائی ہو، جس کو سچائی سے منحرف اور باطل پرستی کی طرف راغب دیکھ کر خدا نے بھی اسی طرف پھیر دیا ہو جس طرف وہ خود پھرنا چاہتا تھا، اور جس کی ضلالت طلبی کی وجہ سے خدا نے اس پر ہدایت کے دروازے بند اور صرف ضلالت ہی کے راستے کھول دیے ہوں، ایسے شخص کو راہ راست دکھانا درحقیقت کسی انسان کے بس کا کام نہیں ہے۔ اس معاملہ کو رزق کی مثال سے سمجھیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ رزق کے تمام خزانے اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ جس انسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے اللہ ہی کے ہاں سے ملتا ہے۔ مگر اللہ ہر شخص کو رزق اس راستہ سے دیتا ہے جس راستے سے وہ خود مانگتا ہو۔ اگر کوئی شخص اپنا رزق حلال راستہ سے طلب کرے اور اسی کے لیے کوشش بھی کرے تو اللہ اس کے لیے حلال راستوں کو کھول دیتا ہے اور جتنی اس کی نیت صادق ہوتی ہے اسی نسبت سے حرام کے راستے اس کے لیے بند کردیتا ہے۔ بخلاف اس کے جو شخص حرام خوری پر تلا ہوا ہوتا ہے اور اسی کے لیے سعی کرتا ہے اس کو خدا کے اذن سے حرام ہی کی روٹی ملتی ہے اور پھر یہ کسی کے بس کی بات نہیں کہ اس کے نصیب میں رزق حلال لکھ دے۔ بالکل اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں فکر و عمل کی تمام راہیں اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔ کوئی شخص کسی راہ پر بھی اللہ کے اذن اور اس کی توفیق کے بغیر نہیں چل سکتا۔ رہی یہ بات کہ کس انسان کو کس راہ پر چلنے کا اذن ملتا ہے اور کس راہ کی رہروی کے اسباب اس کے لیے ہموار کیے جاتے ہیں، تو اس کا انحصار سراسر آدمی کی اپنی طلب اور سعی پر ہے۔ اگر وہ خدا سے لگاؤ رکھتا ہے، سچائی کا طالب ہے، اور خالص نیت سے خدا کے راستے پر چلنے کی سعی کرتا ہے، تو اللہ اسی کا اذن اسی کی توفیق اسے عطا فرماتا ہے اور اسی راہ پر چلنے کے اسباب اس کے لیے موافق کردیتا ہے۔ بخلاف اس کے جو شخص خود گمراہی کو پسند کرتا ہے اور غلط راستوں ہی پر چلنے کی سعی کرتا ہے، اللہ کی طرف سے اس کے لیے ہدایت کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور وہی راہیں اس کے لیے کھول دی جاتی ہیں جن کو اس نے آپ اپنے لیے منتخب کیا ہے۔ ایسے شخص کو غلط سوچنے، غلط کام کرنے اور غلط راہوں میں اپنی قوتیں صرف کرنے سے بچا لینا کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔ اپنے نصیب کی راہ راست جس نے خود کھودی اور جس سے اللہ نے اس کو محروم کردیا، اس کے لیے یہ گم شدہ نعمت کسی کے ڈھونڈے نہیں مل سکتی۔