عذاب اکبر عذاب ادنی

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 32 السجدة – آیت نمبر 21

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ

وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ

اُس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دُنیا میں(کسی نہ کسی چھوٹے)عذاب کا مزا اِنہیں چکھا تے رہیں گے، شاید کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے)باز آجائیں۔(1)

تشریح   ( 1)

” عذاب اکبر ” سے مراد آخرت کا عذاب ہے جو کفر و فسق کی پاداش میں دیا جائے گا۔ اس کے مقابلہ میں ” عذاب ادنیٰ ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد وہ تکلیفیں ہیں جو اسی دنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں۔ مثلاً افراد کی زندگی میں سخت بیماریاں، اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت، المناک حادثے، نقصانات، ناکامیاں وغیرہ۔ اور اجتماعی زندگی میں طوفان، زلزلے، سیلاب، وبائیں، قحط، فسادات، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں جو ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہیں۔ ان آفات کے نازل کرنے کی مصلحت یہ بیان کی گئی ہے کہ عذاب اکبر میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیں اور اس طرز فکر و عمل کو چھوڑ دیں جس کی پاداش میں آخر کار انہیں وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل بخیریت ہی نہیں رکھا ہے کہ پورے آرام و سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور آدمی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجائے کہ اس سے بالا کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ وقتاً فوقتاً افراد پر بھی اور قوموں اور ملکوں پر بھی ایسی آفات بھیجتا رہتا ہے جو اسے اپنی بےبسی کا اور اپنے سے بالا تر ایک ہمہ گیر سلطنت کی فرمانروائی کا احساس دلاتی ہیں۔ یہ آفات ایک ایک شخص کو، ایک ایک گروہ کو اور ایک ایک قوم کو یہ یاد دلاتی ہیں کہ اوپر تمہاری قسمتوں کو کوئی اور کنٹرول کر رہا ہے۔ سب کچھ تمہارے ہاتھ میں نہیں دے دیا گیا ہے۔ اصل طاقت اسی کارفرما اقتدار کے ہاتھ میں ہے۔ اس کی طرف سے جب کوئی آفت تمہارے اوپر آئے تو نہ تمہاری کوئی تدبیر اسے دفع کرسکتی ہے، اور نہ کسی جن، یا روح، یا دیوی اور دیوتا، یا نبی اور ولی سے مدد مانگ کر تم اس کو روک سکتے ہو۔ اس لحاظ سے یہ آفات محض آفات نہیں ہیں بلکہ خدا کی تنبیہات ہیں جو انسان کو حقیقت سے آگاہ کرنے اور اس کی غلط فہمیاں رفع کرنے کے لیے بھیجی جاتی ہیں۔ ان سے سبق لے کر دنیا ہی میں آدمی اپنا عقیدہ اور عمل ٹھیک کرلے تو آخرت میں خدا کا بڑا عذاب دیکھنے کی نوبت ہی کیوں آئے۔

فلاح کا قرانی تصور

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ ۛ فِيْهِ  ۛ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ
یہ اللہ کی کتاب ہے ،اس میں کوئی شک نہیں2 ہے۔ہدایت ہے اُن پرہیزگاروں کے3 لئے    (سورة الْبَقَرَة 2)

اس کا ایک سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے کہ ” بیشک یہ اللہ کی کتاب ہے۔ “ مگر ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ایسی کتاب ہے جس میں شک کی کوئی بات نہیں ہے۔ دنیا میں جتنی کتابیں امور مابعد الطبیعت اور حقائقِ ماوراء ادراک سے بحث کرتی ہیں وہ سب قیاس و گمان پر مبنی ہیں، اس لیے خود ان کے مصنّف بھی اپنے بیانات کے بارے میں شک سے پاک نہیں ہو سکتے خواہ وہ کتنے ہی یقین کا اظہار کریں۔ لیکن یہ ایسی کتاب ہے جو سراسر علم حقیقت پر مبنی ہے، اس کا مصنف وہ ہے جو تمام حقیقتوں کا علم رکھتا ہے، اس لیے فی الواقع اس میں شک کے لیے کوئی جگہ نہیں، یہ دوسری بات ہے کہ انسان اپنی نادانی کی بنا پر اس کے بیانات میں شک کریں۔   (سورة الْبَقَرَة 3)

یعنی یہ کتاب ہے تو سراسر ہدایت و رہنمائی، مگر اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی میں چند صفات پائی جاتی ہوں۔ ان میں سے اوّلین صفت یہ ہے کہ آدمی ” پرہیزگار “ ہو۔ بَھلائی اور برائی میں تمیز کرتا ہو۔ برائی سے بچنا چاہتا ہو۔ بَھلائی کا طالب ہو اور اس پر عمل کرنے کا خواہش مند ہو۔ رہے وہ لوگ، جو دنیا میں جانوروں کی طرح جیتے ہوں جنہیں کبھی یہ فکر لاحق نہ ہوتی ہو کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ صحیح بھی ہے یا نہیں، بس جدھر دنیا چل رہی ہو، یا جدھر خواہش نفس دھکیل دے، یا جدھر قدم اٹھ جائیں، اسی طرف چل پڑتے ہوں، تو ایسے لوگوں کے لیے قرآن میں کوئی رہنمائِ نہیں ہے۔
(تفہیم القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 2)

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ

الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ
جو غیب پر ایمان لاتے4 ہیں،نماز قائم کرتے ہیں5،جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے ،اس میں سے خرچ کرتے ہیں6     (سورة الْبَقَرَة 6 – 4)

یہ قرآن سے فائدہ اٹھانے کے لیے دوسری شرط ہے۔ ” غیب “ سے مراد وہ حقیقتیں ہیں جو انسان کے حواس سے پوشیدہ ہیں اور کبھی براہ راست عام انسانوں کے تجربہ و مشاہدہ میں نہیں آتیں۔ مثلاً خدا کی ذات وصفات، ملائکہ، وحی، جنّت، دوزخ وغیرہ۔ ان حقیقتوں کو بغیر دیکھے ماننا اور اس اعتماد پر ماننا کہ نبی ان کی خبر دے رہا ہے، ایمان بالغیب ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ان غیر محسوس حقیقتوں کو ماننے کے لیے تیار ہو صرف وہی قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ رہا وہ شخص جو ماننے کے لیے دیکھنے اور چکھنے اور سونگھنے کی شرط لگائے، اور جو کہے کہ میں کسی ایسی چیز کو نہیں مان سکتا جو ناپی اور تولی نہ جاسکتی ہو تو وہ اس کتاب سے ہدایت نہیں پاسکتا۔ Continue reading “فلاح کا قرانی تصور”

شرک قران پاک سے

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران – آیت نمبر 95

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
قُل صَدَقَ اللّهُ‌ ۗ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ اِبرهِيمَ حَنِيفًا ؕ وَمَا كَانَ مِنَ المُشرِكِينَ

ترجمہ:کہو، اللہ نے جو کچھ فرمایا ہے سچ فرمایا ہے،تم کو یکسُو ہو کر ابراہیم ؑ کے طریقہ کی پیروی کرنی چاہیے، اور ابراہیم ؑ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا۔78

تفسیر:سورة اٰلِ عِمْرٰن  78

مطلب یہ ہے کہ ان فقہی جزئیات میں کہاں جا پھنسے ہو۔ دین کی جڑ تو اللہ واحد کی بندگی ہے جسے تم نے چھوڑ دیا اور شرک کی آلائشوں میں مبتلا ہوگئے۔ اب بحث کرتے ہو فقہی مسائل میں، حالانکہ یہ وہ مسائل ہیں جو اصل ملت ابراہیمی سے ہٹ جانے کے بعد انحطاط کی طویل صدیوں میں تمہارے علماء کی موشگافیوں سے پیدا ہوئے ہیں۔

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء – آیت نمبر 48

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّ اللّهَ لَا يَغفِرُ اَن يُّشرَكَ بِه وَيَغفِرُ مَا دُونَ ذلِكَ لِمَن يَّشَآءُ‌ ۚ وَمَن يُّشرِك بِاللّهِ فَقَدِ افتَـرۤى اِثمًا عَظِيمًا‏

ترجمہ:اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا،79 اِس کے ماسوا دُوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔80 اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھیرایا اُس نے تو بہت ہی بڑا جُھوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی

تفسیر:سورة النِّسَآء  79 Continue reading “شرک قران پاک سے”

الطاغوت

تفہیم القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت (256)

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انْفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

دین کے معاملے میں کوئی زورزبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت(1)      کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا ہے)         سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے

تشریح            (    1)

” طاغوت “ لغت کے اعتبار سے ہر اس شخص کو کہا جائے گا، جو اپنی جائز حد سے تجاوز کر گیا ہو۔ قرآن کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ بندہ ہے، جو بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خود آقائی و خداوندی کا دم بھرے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے۔ خدا کے مقابلے میں ایک بندے کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں۔ پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اصولاً اس کی فرماں برداری ہی کو حق مانے، مگر عملاً اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے۔ اس کا نام فسق ہے۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ اس کی فرماں برداری سے اصولاً منحرف ہو کر یا تو خود مختار بن جائے یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے لگے۔ یہ کفر ہے۔ تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ مالک سے باغی ہو کر اس کے ملک اور اس کی رعیت میں خود اپنا حکم چلانے لگے۔ اس آخری مرتبے پر جو بندہ پہنچ جائے، اسی کا نام طاغوت ہے اور کوئی شخص صحیح معنوں میں اللہ کا مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ وہ اس طاغوت کا منکر نہ ہو۔

Continue reading “الطاغوت”

دانش مند قران پاک سے

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة – آیت نمبر 269

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ

يُؤتِى الحِكمَةَ مَن يَّشَآءُ‌‌ ۚ وَمَن يُّؤتَ الحِكمَةَ فَقَد اُوتِىَ خَيرًا كَثِيرًا‌ ؕ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الاَلبَابِ

ترجمہ: جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی ، اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔309 اِن باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں ،جو دانشمند ہیں

تفسیر:   سورة الْبَقَرَة  309

حکمت سے مراد صحیح بصیرت اور صحیح قوت فیصلہ ہے۔ یہاں اس ارشاد سے مقصود یہ بتانا ہے کہ جس شخص کے پاس حکمت کی دولت ہوگی، وہ ہرگز شیطان کی بتائی ہوئی راہ پر نہ چلے گا، بلکہ اس راہ کشادہ کو اختیار کرے گا جو اللہ نے دکھائی ہے۔ شیطان کے تنگ نظر مریدوں کی نگاہ میں یہ بڑی ہوشیاری اور عقل مندی ہے کہ آدمی اپنی دولت کو سنبھال سنبھال کر رکھے اور ہر وقت مزید کمائی کی فکر ہی میں لگا رہے۔ لیکن جن لوگوں نے اللہ سے بصیرت کا نور پایا ہے، ان کی نظر میں یہ عین بےوقوفی ہے۔ حکمت و دانائی ان کے نزدیک یہ ہے کہ آدمی جو کچھ کمائے، اسے اپنی متوسط ضروریات پوری کرنے کے بعد دل کھول کر بھلائی کے کاموں میں خرچ کرے۔ پہلا شخص ممکن ہے کہ دنیا کی اس چند روزہ زندگی میں دوسرے کی بہ نسبت بہت زیادہ خوشحال ہو، لیکن انسان کے لیے یہ دنیا کی زندگی پوری زندگی نہیں، بلکہ اصل زندگی کا ایک نہایت چھوٹا سا جز ہے۔ اس چھوٹے سے جز کی خوش حالی کے لیے جو شخص بڑی اور بےپایاں زندگی کی بدحالی مول لیتا ہے، وہ حقیقت میں سخت بیوقوف ہے۔ عقل مند دراصل وہی ہے، جس نے اس مختصر زندگی کی مہلت سے فائدہ اٹھا کر تھوڑے سرمایے ہی سے اس ہمیشگی کی زندگی میں اپنی خوشحالی کا بندوبست کرلیا۔

Continue reading “دانش مند قران پاک سے”