تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام – آیت نمبر 112
سورة الْاَنْعَام 80
یہاں ہماری سابق تشریحات کے علاوہ یہ حقیقت بھی اچھی طرح ذہن نشین ہوجانی چاہیے کہ قرآن کی رو سے اللہ تعالیٰ کی مشِیَّت اور اس کی رضا میں بہت بڑا فرق ہے جس کو نظر انداز کردینے سے بالعموم شدید غلط فہمیاں واقع ہوتی ہیں۔ کسی چیز کا اللہ کی مشیت اور اس کے اذن کے تحت رونما ہونا لازمی طور پر یہ معنی نہیں رکھتا کہ اللہ اس سے راضی بھی ہے اور اسے پسند بھی کرتا ہے۔ دنیا میں کوئی واقعہ کبھی صدور میں نہیں آتا جب تک اللہ اس کے صدور کا اذن نہ دے اور اپنی عظیم الشان اسکیم میں اس کے صدور کی گنجائش نہ نکالے اور اسباب کو اس حد تک مساعد نہ کر دے کہ وہ واقعہ صادر ہو سکے۔ کسی چور کی چوری، کسی قاتل کا قتل، کسی ظالم و مفسد کا ظلم و فساد اور کسی کافر و مشرک کا کفر و شرک اللہ کی مشیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور اسی طرح کسی مومن اور کسی متقی انسان کا ایمان وتقویٰ بھی مشیت الہٰی کے بغیر محال ہے۔ دونوں قسم کے واقعات یکساں طور پر مشِیَّت کے تحت رونما ہوتے ہیں۔ مگر پہلی قسم کے واقعات سے اللہ راضی نہیں ہے اور اس کے برعکس دوسری قسم کے واقعات کو اس کی رضا اور اس کی پسندیدگی و محبوبیت کی سند حاصل ہے۔ اگرچہ آخر کار کسی خیر عظیم ہی کے لیے فرمانروائے کائنات کی مشیت کام کر رہی ہے، لیکن اس خیر عظیم کے ظہور کا راستہ نور و ظلمت، خیر و شر اور صلاح و فساد کی مختلف قوتوں کے ایک دوسرے کے مقابلہ میں نبرد آزما ہونے ہی سے صاف ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی بزرگ تر مصلحتوں کی بنا پر وہ طاعت اور معصیت، ابراہیمیت اور نمرودیت، موسویت اور فرعونیت، آدمیت اور شیطنت، دونوں کو اپنا اپنا کام کرنے کا موقع دیتا ہے۔ اس نے اپنی ذی اختیار مخلوق (جن و انسان) کو خیر اور شر میں سے کسی ایک کے انتخاب کرلینے کی آزادی عطا کردی ہے۔ جو چاہے اس کار گاہ عالم میں اپنے لیے خیر کا کام پسند کرلے اور جو چاہے شر کا کام۔ دونوں قسم کے کارکنوں کو، جس حد تک خدائی مصلحتیں اجازت دیتی ہیں، اسباب کی تائید نصیب ہوتی ہے۔ لیکن اللہ کی رضا اور اس کی پسندیدگی صرف خیر ہی کے لیے کام کرنے والوں کو حاصل ہے اور اللہ کو محبوب یہی بات ہے کہ اس کے بندے اپنی آزادی انتخاب سے فائدہ اٹھا کر خیر کو اختیار کریں نہ کہ شر کو۔
اس کے ساتھ یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ یہ جو اللہ تعالیٰ دشمنان حق کی مخالفانہ کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنی مشیت کا بار بار حوالہ دیتا ہے اس سے مقصود دراصل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو، اور آپ کے ذریعہ سے اہل ایمان کو یہ سمجھانا ہے کہ تمہارے کام کی نوعیت فرشتوں کے کام کی سی نہیں ہے جو کسی مزاحمت کے بغیر احکام الہٰی کی تعمیل کر رہے ہیں۔ بلکہ تمہارا اصل کام شریروں اور باغیوں کے مقابلہ میں اللہ کے پسند کردہ طریقہ کو غالب کرنے کے لیے جد و جہد کرنا ہے۔ اللہ اپنی مشیت کے تحت ان لوگوں کو بھی کام کرنے کا موقع دے رہا ہے جنہوں نے اپنی سعی و جہد کے لیے خود اللہ سے بغاوت کے راستے کو اختیار کیا ہے، اور اسی طرح وہ تم کو بھی، جنھوں نے طاعت و بندگی کے راستے کو اختیار کیا ہے، کام کرنے کا پورا موقع دیتا ہے۔ اگرچہ اس کی رضا اور ہدایت و رہنمائی اور تائید و نصرت تمہارے ہی ساتھ ہے، کیونکہ تم اس پہلو میں کام کر رہے ہو جسے وہ پسند کرتا ہے، لیکن تمہیں یہ توقع نہ رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی فوق الفطری مداخلت سے ان لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر دے گا جو ایمان نہیں لانا چاہتے، یا ان شیاطین جن و انس کو زبردستی تمہارے راستہ سے ہٹا دے گا جنھوں نے اپنے دل و دماغ کو اور دست و پا کو قوتوں کو اور اپنے وسائل و ذرائع کو حق کی راہ روکنے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ نہیں، اگر تم نے واقعی حق اور نیکی اور صداقت کے لیے کام کرنے کا عزم کیا ہے تو تمہیں باطل پرستوں کے مقابلہ میں سخت کشمکش اور جدوجہد کر کے اپنی حق پرستی کا ثبوت دینا ہوگا۔ ورنہ معجزوں کے زور سے باطل کو مٹانا اور حق کو غالب کرنا ہوتا تو تمہاری ضرورت ہی کیا تھی، اللہ خود ایسا انتظام کرسکتا تھا کہ دنیا میں کوئی شیطان نہ ہوتا اور کسی شرک و کفر کے ظہور کا امکان نہ ہوتا۔