دانش مند قران پاک سے

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة – آیت نمبر 269

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ

يُؤتِى الحِكمَةَ مَن يَّشَآءُ‌‌ ۚ وَمَن يُّؤتَ الحِكمَةَ فَقَد اُوتِىَ خَيرًا كَثِيرًا‌ ؕ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الاَلبَابِ

ترجمہ: جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی ، اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔309 اِن باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں ،جو دانشمند ہیں

تفسیر:   سورة الْبَقَرَة  309

حکمت سے مراد صحیح بصیرت اور صحیح قوت فیصلہ ہے۔ یہاں اس ارشاد سے مقصود یہ بتانا ہے کہ جس شخص کے پاس حکمت کی دولت ہوگی، وہ ہرگز شیطان کی بتائی ہوئی راہ پر نہ چلے گا، بلکہ اس راہ کشادہ کو اختیار کرے گا جو اللہ نے دکھائی ہے۔ شیطان کے تنگ نظر مریدوں کی نگاہ میں یہ بڑی ہوشیاری اور عقل مندی ہے کہ آدمی اپنی دولت کو سنبھال سنبھال کر رکھے اور ہر وقت مزید کمائی کی فکر ہی میں لگا رہے۔ لیکن جن لوگوں نے اللہ سے بصیرت کا نور پایا ہے، ان کی نظر میں یہ عین بےوقوفی ہے۔ حکمت و دانائی ان کے نزدیک یہ ہے کہ آدمی جو کچھ کمائے، اسے اپنی متوسط ضروریات پوری کرنے کے بعد دل کھول کر بھلائی کے کاموں میں خرچ کرے۔ پہلا شخص ممکن ہے کہ دنیا کی اس چند روزہ زندگی میں دوسرے کی بہ نسبت بہت زیادہ خوشحال ہو، لیکن انسان کے لیے یہ دنیا کی زندگی پوری زندگی نہیں، بلکہ اصل زندگی کا ایک نہایت چھوٹا سا جز ہے۔ اس چھوٹے سے جز کی خوش حالی کے لیے جو شخص بڑی اور بےپایاں زندگی کی بدحالی مول لیتا ہے، وہ حقیقت میں سخت بیوقوف ہے۔ عقل مند دراصل وہی ہے، جس نے اس مختصر زندگی کی مہلت سے فائدہ اٹھا کر تھوڑے سرمایے ہی سے اس ہمیشگی کی زندگی میں اپنی خوشحالی کا بندوبست کرلیا۔

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران – آیت نمبر 7

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ

هُوَ الَّذِىۤ اَنزَلَ عَلَيكَ الكِتبَ مِنهُ ايتٌ مُّحكَمتٌ هُنَّ اُمُّ الكِتبِ وَاُخَرُ مُتَشبِهتٌ‌ؕ فَاَمَّا الَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم زَيغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنهُ ابتِغَآءَ الفِتنَةِ وَابتِغَآءَ تَاوِيلِهۚ وَمَا يَعلَمُ تَاوِيلَهۤ اِلَّا اللّهُ ‌ۘ وَ الرّسِخُونَ فِى العِلمِ يَقُولُونَ امَنَّا بِهۙ كُلٌّ مِّن عِندِ رَبِّنَا ‌ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الاَلبَابِ

ترجمہ: وہی خدا ہے، جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے۔ اس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں: ایک محکمات، جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں5 اور دُوسری متشابہات6۔ جن لوگوں کو دلوں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور اُن کو معنی پہنانے کی کو شش کیا کرتے ہیں، حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بخلا ف اِ س کے جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ”ہمارا اُن پر ایمان ہے، یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہیں۔7“ اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں

تفسیر: سورة اٰلِ عِمْرٰن  5

محکم پکی اور پختہ چیز کو کہتے ہیں۔ ” آیات محکمات “ سے مراد وہ آیات ہیں، جن کی زبان بالکل صاف ہے، جن کا مفہوم متعین کرنے میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے، جن کے الفاظ معنی و مدعا پر صاف اور صریح دلالت کرتے ہیں، جنہیں تاویلات کا تختہ مشق بنانے کا موقع مشکل ہی سے کسی کو مل سکتا ہے۔ یہ آیات ” کتاب کی اصل بنیاد ہیں “ ، یعنی قرآن جس غرض کے لیے نازل ہوا ہے، اس غرض کو یہی آیتیں پورا کرتی ہیں۔ انہی میں اسلام کی طرف دنیا کی دعوت دی گئی ہے، انہی میں عبرت اور نصیحت کی باتیں فرمائی گئی ہیں، انہی میں گمراہیوں کی تردید اور راہ راست کی توضیح کی گئی ہے۔ انہی میں دین کے بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں۔ انہی میں عقائد، عبادات، اخلاق، فرائض اور امر و نہی کے احکام ارشاد ہوئے ہیں۔ پس جو شخص طالب حق ہو اور یہ جاننے کے لیے قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہتا ہو کہ وہ کس راہ پر چلے اور کس راہ پر نہ چلے، اس کی پیاس بجھانے کے لیے آیات محکمات ہی اصل مرجع ہیں اور فطرةً انہی پر اس کی توجہ مرکوز ہوگی اور وہ زیادہ تر انہی سے فائدہ اٹھانے میں مشغول رہے گا۔

 سورة اٰلِ عِمْرٰن  6

متشابہات، یعنی وہ آیات جن کے مفہوم میں اشتباہ کی گنجائش ہے۔

یہ ظاہر ہے کہ انسان کے لیے زندگی کا کوئی راستہ تجویز نہیں کیا جاسکتا، جب تک کائنات کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام اور اس میں انسان کی حیثیت اور ایسے ہی دوسرے بنیادی امور کے متعلق کم سے کم ضروری معلومت انسان کو نہ دی جائیں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جو چیزیں انسان کے حواس سے ماورا ہیں، جو انسانی علم کی گرفت میں نہ کبھی آئی ہیں، نہ آسکتی ہیں، جن کو اس نے نہ کبھی دیکھا، نہ چھوا، نہ چکھا، ان کے لیے انسانی زبان میں نہ ایسے الفاظ مل سکتے ہیں جو انہی کے لیے وضع کیے گئے ہوں اور نہ ایسے معروف اسالیب بیان مل سکتے ہیں، جن سے ہر سامع کے ذہن میں ان کی صحیح تصویر کھنچ جائے۔ لامحالہ یہ ناگزیر ہے کہ اس نوعیت کے مضامین کو بیان کرنے کے لیے الفاظ اور اسالیب بیان وہ استعمال کیے جائیں، جو اصل حقیقت سے قریب تر مشابہت رکھنے والی محسوس چیزوں کے لیے انسانی زبان میں پائے جاتے ہیں۔ چناچہ مابعد الطبیعی مسائل کے بیان میں قرآن کے اندر ایسی ہی زبان استعمال کی گئی ہے اور متشابہات سے مراد وہ آیات ہیں، جن میں یہ زبان استعمال ہوئی ہے۔

لیکن اس زبان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ بس اتنا ہی ہوسکتا ہے کہ آدمی کو حقیقت کے قریب تک پہنچا دے یا اس کا ایک دھندلا سا تصور پیدا کردے۔ ایسی آیات کے مفہوم کو متعین کرنے کی جتنی زیادہ کوشش کی جائے گی، اتنے ہی زیادہ اشتباہات و احتمالات سے سابقہ پیش آئے گا، حتٰی کہ انسان حقیقت سے قریب تر ہونے کے بجائے اور زیادہ دور ہوتا چلا جائے گا۔ پس جو لوگ طالب حق ہیں اور ذوق فضول نہیں رکھتے، وہ تو متشابہات سے حقیقت کے اس دھندلے تصور پر قناعت کرلیتے ہیں جو کام چلانے کے لیے کافی ہے اور اپنی تمام تر توجہ محکمات پر صرف کرتے ہیں، مگر جو لوگ بوالفضول یا فتنہ جو ہوتے ہیں، ان کا تمام تر مشغلہ متشابہات ہی کی بحث و تنقیب ہوتا ہے۔

 سورة اٰلِ عِمْرٰن  7

یہاں کسی کو یہ شبہہ نہ ہو کہ جب وہ لوگ متشابہات کا صحیح مفہوم جانتے ہی نہیں، تو ان پر ایمان کیسے لے آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک معقول آدمی کو قرآن کے کلام اللہ ہونے کا یقین محکمات کے مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ متشابہات کی تاویلوں سے۔ اور جب آیات محکمات میں غور و فکر کرنے سے اس کو یہ اطمینان حاصل ہوجاتا ہے کہ یہ کتاب واقعی اللہ ہی کی کتاب ہے، تو پھر متشابہات اس کے دل میں کوئی خلجان پیدا نہیں کرتے۔ جہاں تک ان کا سیدھا سادھا مفہوم اس کی سمجھ میں آجاتا ہے، اس کو وہ لے لیتا ہے اور جہاں پیچیدگی رونما ہوتی ہے، وہاں کھوج لگانے اور موشگافیاں کرنے کے بجائے وہ اللہ کے کلام پر مجمل ایمان لا کر اپنی توجہ کام کی باتوں کی طرف پھیر دیتا ہے۔

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 13 الرعد – آیت نمبر 19

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ

اَفَمَن يَّعلَمُ اَنَّمَاۤ اُنزِلَ اِلَيكَ مِن رَّبِّكَ الحَـقُّ كَمَن هُوَ اَعمىؕ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الاَلبَابِۙ‏

ترجمہ: بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص جو تمہارے ربّ کی اِس کتاب کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے حق جانتا ہے، اور وہ شخص جو اس حقیقت کی طرف سے اندھا ہے، دونوں یکساں ہو جائیں؟35 نصیحت تو دانشمند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں۔36

تفسیر:سورة الرَّعْد  35

یعنی نہ دنیا میں ان دونوں کا رویہ یکساں ہوسکتا ہے اور نہ آخرت میں ان کا انجام یکساں۔

 سورة الرَّعْد  36

یعنی خدا کی بھیجی ہوئی اس تعلیم اور خدا کے رسول کی اس دعوت کو جو لوگ قبول کیا کرتے ہیں وہ عقل کے اندھے نہیں بلکہ ہوش گوش رکھنے والے بیدار مغز لوگ ہی ہوتے ہیں۔ اور پھر دنیا میں ان کی سیرت و کردار کا وہ رنگ اور آخرت میں ان کا وہ انجام ہوتا ہے جو بعد کی آیتوں میں بیان ہوا ہے۔

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 30 الروم – آیت نمبر 22

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ

وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِلْعَالِمِينَ

ترجمہ:اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین  کی پیدائش،31 اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے۔32 یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانشمند لوگوں کے لیے

تفسیر:سورة الروم   31

یعنی ان کا عدم سے وجود میں آنا اور ایک اٹل ضابطے پر ان کا قائم ہونا، اور بیشمار قوتوں کا ان کے اندر انتہائی تناسب و توازن کے ساتھ کام کرنا، اپنے اندر اس بات کی بہت سی نشانیاں رکھتا ہے کہ اس پوری کائنات کو ایک خالق اور ایک ہی خالق وجود میں لایا ہے اور وہی اس عظیم الشان نظام کی تدبیر کر رہا ہے۔ ایک طرف اگر اس بات پر غور کیا جائے کہ کہ وہ ابتدائی قوت (energy) کہاں سے آئی جس نے مادے کی شکل اختیار کی، پھر مادے کے یہ بہت سے عناصر کیسے بنے، پھر ان عناصر کی اس قدر حکیمانہ ترکیب سے اتنی حیرت انگیز مناسبتوں کے ساتھ یہ مدہوش کن نظام عالم کیسے بن گیا، اور اب یہ نظام کروڑہا کروڑ صدیوں سے کس طرح ایک زبردست قانون فطرت کی بندش میں کسا ہوا چل رہا ہے، تو ہر غیر متعصب عقل اس نتیجے پر پہنچے گی کہ یہ سب کچھ کسی علیم و حکیم کے غالب ارادے کے بغیر محض بخت و اتفاق کے نتیجے میں نہیں ہوسکتا۔ اور دوسری طرف اگر یہ دیکھا جائے کہ زمین سے لے کر کائنات کے بعید ترین سیاروں تک سب ایک ہی طرح کے عناصر سے مرکب ہیں اور ایک ہی قانون فطرت ان میں کار فرما ہے تو ہر عقل جو ہٹ دھرم نہیں ہے، بلا شبہ یہ تسلیم کرے گی کہ یہ سب کچھ بہت سے خداؤں کا کرشمہ نہیں ہے بلکہ ایک ہی خدا اس پوری کائنات کا خالق اور رب ہے۔

 سورة الروم   32

یعنی باوجودیکہ تمہارے قوائے نطقیہ یکساں ہیں، نہ منہ اور زبان کی ساخت میں کوئی فرق ہے اور نہ دماغ کی ساخت میں، مگر زمین کے مختلف خطوں میں تمہاری زبانیں مختلف ہیں، پھر ایک ہی زبان بولنے والے علاقوں میں شہر شہر اور بستی بستی کی بولیاں مختلف ہیں، اور مزید یہ کہ ہر شخص کا لہجہ اور تلفظ اور طرز گفتگو دوسرے سے مختلف ہے، اسی طرح تمہارا مادہ تخلیق اور تمہاری بناوٹ کا فارمولا ایک ہی ہے، مگر تمہارے رنگ اس قدر مختلف ہیں کہ قوم اور قوم تو درکنا، ایک ماں ماں باپ کے دو بیٹوں کا رنگ بھی بالکل یکساں نہیں ہے۔ یہاں نمونے کے طور پر صرف دو ہی چیزوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ لیکن اسی رخ پر آگے بڑھ کر کر دیکھیے تو دنیا میں آپ ہر طرف اتنا تنوع (Variety) پائیں گے کہ اس کا احاطہ مشکل ہوجائے گا۔ انسان، حیوان، نباتات اور دوسری تمام اشیاء کی جس نوع کو بھی آپ لے لیں اس کے افراد میں بنیادی یکسانی کے باوجود بیشمار اختلافات موجود ہیں حتی کہ کسی نوع کا بھی کوئی ایک فرد دوسرے سے بالکل مشابہ نہیں ہے، حتی کہ ایک درخت کے دو پتوں میں بھی پوری مشابہت نہیں پائی جاتی۔ یہ چیز صاف بتارہی ہے کہ یہ دنیا کوئی ایسا کارخانہ نہیں ہے جس میں خودکار مشینیں چل رہی ہوں اور کثیر پیدا آوری (Mass Production) کے طریقے پر ہر قسم کی اشیاء کا بس ایک ایک ٹھپہ ہو جس سے ڈھل ڈھول کر ایک ہی طرح کی چیزیں نکلتی چلی آرہی ہوں۔ بلکہ یہاں ایک ایسا زبردست کاریگر کام کررہا ہے جو ہر چیز کو پوری انفرادی توجہ کے ساتھ ایک نئے ڈیزائن، نئے نقش و نگار، نئے تناسب اور نئے اوصاف کے ساتھ بناتا ہے اور اس کی بنائی ہوئی ہر چیز اپنی جگہ منفرد ہے۔ اس کی قوت ایجاد ہر آن ہر چیز کا ایک نیا ماڈل ناکل رہی ہے، اور اس کی صناعی ایک ڈیزائن کو دوسری مرتبہ دوہرانا اپنے کمال کی توہین سمجھتی ہے۔ اس حیرت انگیز منظر کو جو شخص بھی آنکھیں کھول کر دیکھے گا وہ کبھی اس احمقانہ تصور میں مبتلا نہیں ہوسکتا کہ اس کائنات کا بنانے والا ایک دفعہ اس کارخانے کو چلا کر کہیں جا سویا ہے۔ یہ تو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ وہ ہر وقت کار تخلیق میں لگا ہوا ہے اور اپنی خلق کی ایک ایک چیز پر انفرادی توجہ صرف کر رہا ہے۔

تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر – آیت نمبر 18

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ

الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ۚ أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ ۖ وَأُولَئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ

ترجمہ: جو بات کو غور سے سُنتے ہیں اور اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں۔ 36 یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی دانشمند ہیں

تفسیر:سورة الزُّمَر  36

اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ہر آواز کے پیچھے نہیں لگ جاتے بلکہ ہر ایک کی بات سن کر اس پر غور کرتے ہیں اور جو حق بات ہوتی ہے اسے قبول کرلیتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ بات کو سن کر غلط معنی پلٹانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اس کے اچھے اور بہتر پہلو کو اختیار کرتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *